" صیہونی دانا بزرگوں کی خفیہ دستاویزات "
(ساتویں دستاویز )
"دستاویز کا نام " عالمگیر جنگیں
دستاویز کے مضامین:
ہتھیاروں کی دوڑ کی ہمت افزائی کرنا۔ غیر یہودی مخالفت کا سدباب کرنے کے لئے عالمی جنگ کروانا۔ امریکہ، چین اور جاپان کی عسکری قوت۔
نیچے سے اصلی دستاویز کے الفاظ شروع ہوتے ہیں، غور سے پڑھیے۔۔۔
----------------------------
-
مذکورہ بالا منصوبوں (جن کا ذکر پچھلی دستاویزات میں ہوا)کی تکمیل کے لئے ہتھیاروں کا پھیلاؤ اور پولیس کی نفری میں اضافہ ناگزیر ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ تمام ملکوں میں ہمارے علاوہ صرف ادنیٰ طبقے سے تعلق رکھنے والے عوام ہوں، ہمارے لئے کام کرنے والے چند کروڑ پتی ہوں، پولیس ہو اور فوج ہو۔
(اس کا مطلب انیسویں صدی کے آغاز میں ہی صیہونیوں نے باقائدہ پلان بنالیا تھا کہ کس طرح اپنے مقصد کی تکمیل کے لیے دنیا کے چند کروڑ پتیوں کو اپنا ہمنوا بنانا ہے اور کس طرح ایک پولیس فورس اور فوج بناکے اسے اپنے مفاد کے لیے استعمال کرنا ہے۔ آج ایک عالمی پولیس جس کا نام "انٹرپول" ہے صیہونیوں کے لیے ہی کام کرتی ہے۔ یہ پولیس پوری دنیا میں کسی کو بھی پکڑ سکتی ہے۔ اس کے علاوہ آج امریکی و برطانوی فو دونوں صیہونیوں کے چھوٹے سے ملک جس کی اراضی ہمارے شہر کراچی سے بھی چھوٹے کی حفاظت پر معمور ہے)۔
اب ہم دستاویز کو مزید آگے پڑھتے ہیں ۔۔۔
پورے یورپ میں اور یورپ کی وساطت سے دوسرے براعظموں میں بھی ہمیں ہنگامہ، فساد، اختلافات اور باہمی عداوتوں کی حوصلہ افزائی کرنی ہوگی۔ اس سے ہمیں دو فوائد حاصل ہوں گے۔ اول تو اس طرح ہم تمام ملکوں کو اپنے قابو میں رکھ سکیں گے۔ چونکہ یہ بات انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ ہمارے پاس ایسے وسائل ہیں کہ جب چاہیں افراتفری پھیلا سکتے ہیں اور جب چاہیں ہنگامے دُور کرکے امن و امان قائم کرسکتے ہیں۔ یہ تمام ممالک ہمارے اندر جبر و استبداد کی بےبدل قوت دیکھنے کے عادی ہوچکے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ اپنی ریشہ درانیوں کے ذریعہ ہم نے مختلف ملکوں کے گرد، سیاسی اور معاشی معاہدوں اور قرضوں کے بوجھ کا جوتانا بانا بنا ہوا ہے اسے گتھیوں میں الجھا سکیں گے۔
(صیہونیوں کا کوئی دین و ایمان نہیں ہوتا، آپ نے دیکھا کس طرح صیہونیوں کا دانا بزرگ ہنگامے، فسادات، اختلافات اور لوگوں کے درمیان عداوتوں پیدا کرنے کی حوصلہ افزائی کرتا ہے تاکہ اس کے زریعے اپنے مقاصد حاصل کرسکیں)۔
اس مقصد کے حصول کے لئے ہمیں گفت و شنبد کے دوران اور معاہدوں میں انتہائی ہوشیاری اور باریک بینی سے کام لینا پڑے گا۔ اس کے برخلاف ان معاہدوں کے متن مین استعمال ہونے والی "دفتری زبان" کے سلسلے میں ہمیں بالکل متضاد حکمت عملی استعمال کرنی پڑے گی۔ اس پر مکمل دیانتداری اور معاہدوں پر پابندی کا نقاب ہوگا۔ اس طرح غیر یہودی عوام اور حکومتیں، جنہیں ہم نے اپنے پیش کردہ منصوبوں کا صرف ظاہر رخ دیکھنا سکھایا ہے ہمیں اپنا محسن اور بنی نوع انسان کا نجات دہندہ سمجھتے رہیں گے۔ اگر معاہدہ کرنے والے ملک کا کوئی پڑوسی ملک ان معاہدوں میں ہماری مخالفت کی جرءت کرے تو ہمیں اس قابل ہونا چاہیے کہ بزور شمشیر اس مخالفت کی سزا دلواسکیں اور اگر تمام پڑوسی ممالک ہمارے خلاف متحد ہوجائیں تو ہمیں عالمگیر جنگ چھیڑ کر اس کی مزاحمت کرنی چاہیے۔
(اس کا مطلب ہے کہ صیہونیوں جب بھی کوئی معاہدہ کرتے ہیں تو وہ ظاہری طور پر کچھ اور ہوتا ہے مگر اندرونی طور پر کچھ اور۔ اندرونی مقاصد یہ حرام کے نطفے کسی کو نہیں دکھاتے جبکہ ظاہری معاہدے کا اعلان کرکرکے انسانیت کے علمبردار بن کر خود کو فرشتہ ظاہر کرتے ہیں اور جو ان کے ایجنڈے کو بےنقاب کرے یہ اسے مروانا بھی اپنے صیہونی مذھب میں جائز سمجھتے ہیں یہاں تک چاہے کوئی ملک ہی کیوں نہ تباہ ہوجائے یا عالمی جنگ ہی کیوں نہ لگ جائے انہیں صرف اپنے مفادات سے مطلب ہوتا ہے۔)
سیاسی میدان میں کامیابی کا اہم ترین نکتہ اس مہم کی رازداری ہے۔ فن سفارت میں قول و عمل میں کبھی بھی مطابقت نہیں ہونی چاہیے۔ ہمیں غیر یہودی حکومتوں کے لئے ایسے حالات پیدا کردینے چاہیں کہ وہ صرف وہ اقدامات کرنے پر مجبور ہوں جو ہمارے ہمہ گیر منصوبوں کوہماری منشاء کے مطابق پایہ تکمیل تک پہچانے میں ہماری مدد کرسکیں۔ یہ کام رائے عامہ کے ذریعہ حکومت پر دباؤ ڈال کر کیا جائے گا اور اس سلسلے میں اس طاقتور ہتھیار یعنی "پریس" کو استعمال میں لایا جائے گا جو صرف چند غیر اہم مستثنیات کو چھوڑ کر پورا کا پورا ہمارے قبضے میں ہے۔
مختصراََ۔ یورپ کی غیر یہودی حکومتوں کو اپنی حدود میں رکھنے کے لئے ہم تخریب کاری کے ذریعہ ایک ملک میں، بلکہ تمام ملکوں میں اپنی طاقت کا مظاہرہ کریں گے اور اگر یہ سب ہمارے خلاف متحد ہوگئے تو ہم امریکہ، چین اور جاپان کی عسکری قوت استعمال کریں گے۔
ساتویں دستاویز یہاں ختم ہوئی۔
قارئیں دیکھیے صیہونی دانا بزرگ کس طرح اعتراف کررہا تھا کہ وہ پریس یعنی میڈیا کو استعمال کرکے حکومتوں کے فیصلے بدلنے کے لیے دباؤ ڈلوائے گا، فن سفارت کی بات کرتے ہوئے منافق سکھاتا ہے کہ جو سفارت کار زبان سے کہے ویسا کبھی نہ کرے بلکہ ظاہر میں فرشتہ نظر آئے مگر اندر میں پکا شیطان صفت ہونا چاہیے۔ پریس ہو یا سفارت کاری صیہونی کہتا ہے کہ دونوں کو اپنے مفاد اور ایجنڈے کی تکمیل کے لیے استعمال کرے گا۔ آپ دیکھ لیں آج دنیا کا 99 فیصد عالمی میڈیا صیہونیوں کی ملکیت ہے، یہ جب چاہتے ہیں کسی بھی حکومت کو دباؤ میں لانے کے لیے اپنے عالمی چینلز، اخبارات اور ٹی وی شوز کے زریعے حکومتوں کو دباؤ میں لاکر من پسند فیصلے کروانے پر مجبور کرتے ہیں۔
مثال کے طور پر امریکہ کو عراق پر حملہ کے لیے اکسانے کے لیے صیہونیوں نے عالمی میڈیا کے زریعے زبردست پروپیگنڈہ کروایا کہ صدام حسین کے پاس کیمیائی ہتھیار ہیں، مسلسل کئی سالوں تک پروپیگنڈہ کرواکے امریکہ کو مجبور کردیا کہ حملہ کردے اور جب امریکہ نے عراق کو تباہ کرکے لاکھوں لوگوں کا قتل کرلیا تو اسی امریکہ نے اعتراف کیا کہ صدام حسین کے پاس کوئی بھی کیمیائی ہتھیار نہیں تھا وہ سب جھوٹ تھا۔ کام ختم پیسہ ہضم۔
تحریر: یاسررسول
السلام علیکم، محترم یاسر رسول صاحب عمدہ قلمکاری اور مہارت کے ساتھ جس طرح آپ نے سادہ زبان میں یہ تحاریر لکھی ہیں پڑھ کے مزہ آگیا،، برائے مہربانی قسط نمبر 9 کا کچھ کریں جلد از جلد
جواب دیںحذف کریںوعلیکم سلام ورحمہ اللہ، بہت شکریہ، اگلی اقساط جلد شایع کی جائیں گے فیس بک یوٹیوب پر فالو کرلیں وہاں اعلان کیا جائے گا۔ فیس بک @YasirRasool007 اور یوٹیوب پر بھی یہی سرچ کریں @YasirRasool007
حذف کریں