الیومیناٹی پروٹوکولز - قسط نمبر 4

صیہونی دانا بزرگوں کی خفیہ دستاویزات
("تیسری دستاویز "تسخیر کا طریقہ کار)


دستاویز کے مضامین: روایتی سانپ یعنی صیہونی فری میسن کا جال- عوام کے حقوق کے دلفریز نعرے کے پیچھے چھپے اصل حقائق ، غیر یہودیوں یعنی مسلمانوں اور عیسائیوں وغیرہ  کی نسل کشی کرنا، دنیا کے مطلق العنان فرمانرواں یعنی "اقوام متحدہ" کی عالمی سپر گورنمنٹ- عالمی معاشی بحران پیدا کرنا، لوگ ہمارے فری میسن  کے خفیہ گماشتے کو نہیں جان سکتے۔

قارئین ! آج کی تحریر میں ہم صیہونی دانا بزرگوں کی تیسری دستاویز کا مطالعہ کریں گے۔ اوپر بیان کیے گئے دستاویز کے مضامین سے ہی آپ اندازہ لگاچکے ہوں گے کہ یہ دستاویز کیا بیان کرنے والی ہے۔ اس دستاویز میں 0صیہونیوں کے دانا بزرگ نے  جس سانپ کا ذکر کیا ہے اس سے مراد "فری میسن جال" ہے جو وہ پورے یورپ کے گرد بچھانا انکا ایجنڈہ ہے اور یورپ کے توسط سے پھر پوری دنیا کے گرد۔ دستاویزات انیسویں صدی کی ہیں، آج صیہونی یورپ کے گرد جال نہ صرف بچھا چکے ہیں بلکہ پورے یورپ و امریکہ کو بھی اپنا غلام بناچکے ہیں۔ آج کی دستاویز میں دوسری اہم  بات "عوام کے حقوق " کی ہے، آپ نے دیکھا ہوگا کہ پوری دنیا میں حقوق دو کے دلفریز نعرے پر کئی ممالک تباہ کروائے جاچکے ہیں، عورتوں کے حقوق کے نعرے کے پیچھے بھی یہی صیہونی ہیں تاکہ عورت کو زیادہ سے زیادہ آزاد کرواکے خاندانی نظام کو تباہ کیا جاسکے، لازمی عورت جب تک آزاد نہیں ہوتی دنیا میں زناکاری بھی عام نہیں ہوسکتی اس لیے پہلے عورت کو آزادی دینے کے نعرے شروع کروائے گئے۔


پاکستان میں چند ماہ پہلے جو لبرل بےغیرت موم بتی مافیہ نے لڑکیوں کو سڑکوں پرلاکر  واہیات قسم کے بینرز اٹھاکے احتجاج کروایا تھا جن پر لکھا تھا کہ "کھانا خود گرم کرلو"، "ویسے تو ہم بھی لونڈے ہیں "، "میرا جسم میری مرضی" وغیرہ وغیرہ  یا نواز شریف کے اقتدار میں آتے ہی ایک مشہور پرائیوٹ یونیورسٹی کی طالبات نے یونیورسٹی کی دیوار پر اپنے گندے مارہواری پیمپرز ٹانگ کر احتجاج کیا تھا کہ اس خون سے نفرت مت کرو، یہ سب اسی حقوق دو کے نعرے کی کارستانی تھی۔

قارئین ! یہ دستاویز صیہونیوں کے بہت سے اہم رازوں سے پردہ اٹھاتی ہے، آج کی دستاویز میں صیہونیوں کا دانا بزرگ بتاتا ہے کہ یہ "حقوق دو کے نعرے "ہم نے محض اپنا مقصد حاصل کرنے کے لیے مشہور کروائے ہیں اور جس دن ہمارا مقصد پورا ہوگیا اور دجالی حکومت قائم ہوگئی تو پھر اسی حقوق مانگنے والی عوام کو کاٹ کے رکھ دیں گے کیونکہ عوام کو کبھی حقوق نہیں دیے جاسکتے ورنہ عوام بھیڑیوں سے بھی برتر ہوجاتی ہے۔

بقول صیہونی دانا بزرگ لفظ "آزادی" لوگوں کو ہر طاقت سے نبردآزمائی پر اکساتا ہے۔ ہر قسم کے اقتدار کی نفری کرتا ہے۔ یہاں تک کہ خدا اور قانونِ قدرت سے بھی بغاوت کراتا ہے۔ اس لیے جب ہماری دجالی حکومت قائم ہوگی تو ہم اس لفظ کو زندگی کی لغت سے یکسر خارج کردیں گے۔ ہمارے ہاں یہ لفظ ایک ظالم اور بےضمیر طاقت کے مترادف ہوگا۔ ایسی طاقت جو انسانوں کو خون آشام درندوں میں تبدیل کردیتی ہے"۔

اس کے علاوہ دستاویز میں "مطلق العنان فرمانروا" کی بات کی گئی ہے اور عالمی معاشی بحران پیدا کرنے پر زور دیا گیا ہے۔ یاد رہے یہ دستاویز اٹھاوریں صدی کی ہیں اس وقت معاشی بحران نہیں ہوا کرتے تھے لیکن دستاویز منظرعام پر آنے کے بعد انیسویں صدی میں صیہونی جس ملک میں چاہتے معاشی بحران پیدا کردیتے تھے تاکہ اس ملک کے حکمران صیہونی اداروں سے قرض لینے پر مجبور کیا جائے اور یوں صیہونی قرض دینے کے بدلےان سے اپنے من پسند کام کرواتے رہے، آج اکیسویں صدی چل رہی ہے آج تو معاشی بحران تقریباََ ہر ملک کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے یہاں تک کہ عالمی سپر پاور امریکہ بھی معاشی بحران کا شکارہوچکا ہے۔ یہ بحران صیہونی گرانڈ ماسٹرز مشترکہ منصوبہ بندی سے پیدا کرواتے ہیں تاکہ وہ ممالک ان سے قرض لینے پر آمادہ ہوجائیں اور وہ یہ قرض آئی ایم ایف، ورلڈ بینک یا ایشین بینک وغیرہ جیسے انکے اپنے اداروں کے زریعے یا بزریعہ اقوام متحدہ دلوائے جاتے ہیں۔


پاکستان  نے جب پہلی مرتبہ آئی ایم ایف سے قرض لیا تب نادان عوام سمجھ رہی تھی کہ بس اب ملکی مسائل حل ہوگئے لیکن عوام نہیں جانتی تھی کہ سیاسی حکمرانوں نے صیہونیوں کی شرائط قبول کرلی ہیں۔ آئی ایم ایف سے تو آج تک جان نہیں چھوٹی کیونکہ صیہونی کبھی نہیں چاہتے کہ پاکستان آئی ایم ایف پلان سے نکل جائے۔ اگر پاکستانی حکمران اس ملک کو آئی ایم ایف کے چنگل سے نکال دیں تو یہ صیہونیت کو بہت بڑا دھچکا لگے گا 

 اب یہاں سے صیہونی دانا بزرگوں کی تیسری دستاویز "تسخیر کا طریقہ کار" شروع ہوتی ہے، انتہائی غور اور باریک بینی سے مطالعہ کیجیے۔
-------------------------
تیسری دستاویز "تسخیر کا طریقہ کار"

آج میں آپ کو بتاتا ہوں کہ ہماری منزل چند قدم کے فاصلے پر رہ گئی ہے۔ ہمیں اس طویل راہ پر جس پر روایتی سانپ اب تک رینگتا رہا ہے،دائرہ مکمل کرنے کے لیے صرف تھوڑی دور اور چلنا ہے۔ جب یہ دائرہ مکمل ہوجائے گا تو یورپ کے تمام ممالک اس کے حلقے میں اس طرح پھنس جائیں گے گویا کسی طاقتور شکنجے میں جکڑے ہوئے ہوں۔

اس دور کی دستوری میزانوں کا توازن عنقریب بگڑنے والا ہے۔ ہم نے انہیں اس طرح ترتیب دیا ہے کہ ان میزانوں کے پلڑے ہم وزن رہ ہی نہیں سکتے۔ اور بغیر رکے متواتر ہلکے اور بھاری ہوتے رہیں گے۔ یہ عمل اس وقت تک جاری رہے گا جب تک وہ محور جس پر یہ ٹکے ہوئے ہیں گھس پٹ کر ناکارہ نہیں ہوجاتا۔ غیر یہودی اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ انہوں نے اسے کافی مستحکم بنایا ہے اور یہ امید کر رہے ہیں کہ ان پلڑوں میں توازن قائم ہوجائے گا۔ لیکن ان کے محور ، یعنی تاج و تخت کے مالک بادشاہ اپنے حواریوں (مشیروں، اتحادیوں) میں گھرے ہوئے ہیں جو اپنی لامحدود اور غیر ذمہ دار طاقت کے گھمنڈ میں حماقتوں کا ارتکاب کرتے رہتے ہیں۔انہیں یہ طاقت اس خوف اور ہیبت کی بناء پر حاصل ہوئی ہےجو شاہی محلوں سے منسوب کرادی گئی ہے۔ چونکہ عوام سے ان کا تعلق منقطع ہوچکا ہے لہٰذہ بادشاہ اپنے عوام سے افہام و تفہیم نہیں کرسکتے اور جب تک ایسا نہ ہو وہ ان جاہ پسندوں کا مقابلا نہیں کرسکتے جن کے گر وہ گھرے ہوئے ہیں۔

ہم نے بیدار مغذ حکمرانوں اور ان کے عوام کی کورچشم طاقت کے درمیان ایک ایسی خلیج حائل کردی ہے کہ دونوں اپنا ماصل مصرف کھوبیٹھے ہیں۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسا کہ اندھا اور اس کی چھڑی۔ اگر دونوں الگ الگ ہوں تو ایک دوسرے کے لئے بالکل بے مصرف ہوتے ہیں۔

جاہ پرستوں کو طاقت کے غلط استعمال پر اکسانے کے لئے ہم نے حزب اختلاف کی تمام قوتوں کو ایک دوسرے کے خلاف صف آراء کرکے ان کی آزاد خیالی کے رجحانات کو آزادی کے حصول کی راہ پر لگادیا ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لئے ہم نے ہر قسم کی مہم جوئی کو ہوادی، ہر پارٹی کو ہتھیاروں سے لیس کیا اور اقتدار کے حصول کو ہر خواہش کی منزل مقصود بنادیا۔ ملکوں کو ہم نے ایسے اکھاڑے میں تبدیل کردیا ہے جہاں بھانت بھانت کے پراگندہ مسائل ایک دوسرے سے برسرپیکار ہیں۔ اگر یہ صورت حال تھوڑی دیر اور قائم رہی تو بدنظمی اور معاشی بدحالی عالمیر ہوجائے گی۔

اوپر بیان کیے گئے الفاظ میں جمہوریت  کا بھی ذکر ہے جس میں ہر پارٹی کا مقصد صرف اقتدار کا حصول ہوتا ہے، اور ہر اپوزیشن یعنی حزب اختلاف پارٹی کو حکومت وقت کے خلاف لگادیا جاتا ہے، مسائل جوں کے جوں ہی رہتے ہیں مگر ہر پارٹی باری باری اقتدار کا حصول ہی اپنی منزل مراد تصور کرتی ہے۔

اب آگے پڑھتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔

مستقل بکواس کرنے والوں نے متفننہ (پارلیمنٹ) اور انتظامی اداروں کو تقریری مقابلوں میں تبدیل کردیا ہے۔ ڈھیت قسم کے صحافی اور بےایمان اشتہار باز(میڈیا  چینلز)، انتظامیہ کے افسران کو روزان اپنی تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ طاقت کا غلط استعمال (جس کی مستقل نشاندہی ہورہی ہے) تمام اداروں کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوگا۔ اور ہر چیز بےلگام عوام کے غیض و غضب کا شکار ہوکر ہوا میں تحلیل ہوجائے گی۔ غربت کی وجہ سے عوام سخت محنت کی زنجیروں میں اب اس سے زیادہ جکڑے ہوئے ہیں جتنا کہ غلامی کے دور میں جکڑے ہوئے تھے۔وہ اس غلامی سے آزادی حاصل کرسکتے ہیں کسی نہ کسی ذریعہ سے ان مسائل پر قابو بھی پایا جاسکتا ہے لیکن احتیاج سے وہ کبھی بھی چھٹکارا نہیں پاسکتے۔

اب انتہائی غور سے پڑھیے گا، نیچے صیہونی یہودیوں کا دانا بزرگ "عوام کے حقوق" کے نعرے کی اصلیت بیان کرے گا)

ہم نے اپنے دستور میں عوام کو ایسے حقوق دینے کا وعدہ کیا ہے جو محض فرضی ہیں۔ حقیقت سے ان کا دور کا واسطہ بھی نہیں ہے۔ یہ تمام نام نہاد "عوام کے حقوق"صرف ایک خیالی تصور کے طور پر استعمال کئے جاتے ہیں۔ حقیقی زندگی میں انہیں کبھی بھی عملی جامہ نہیں پہنایا جاسکتا۔

اگر ادنیٰ طبقہ ہمارے دستور سے، اس کے علاوہ اور کوئی فائدہ حاصل نہ کرسکے  جو اسے ہمارے نامزد کردہ افراد کو ووٹ دینے کے عوض جنہیں ہم اقتدار میں لانا چاہتے ہیں اور جو ہمارے گماشتوں کے تنخواہ دار ہیں، ہمارے خوان نعمت سے بچے کھچے ٹکڑے مل جائیں تو اس ادنیٰ طبقے کے مزدور کے لئے جس کی کمر محنت کرکرکے دوہری ہوچکی ہو اور وہ خود اپنی زندگی کے بوجھ تلے دبا ہوا ہو اس سے کیا فرق پڑے گا کہ چند تقریر بازوں کو بولنے کا حق مل جائے یا اخبارچیوں کو اچھا مواد چھاپنے کے ساتھ ساتھ کچھ اونٹ پٹانگ باتیں لکھنے کا حق مل جائے۔

غریب آدمی کے لئے "جمہوری حقوق" ایک بدذائقہ ستم ظریفی کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہیں۔ ایک طرف تو وہ سخت محنت کرنے پر مجبور ہے اور اسے اتنا وقت ہی نہیں ملتا کہ وہ اپنے ان جمہوری حقوق سے فائدہ اٹھاسکے دوسری طرف اس کے ساتھ اس سے ہڑتال کرکے یا مالک کام بند کرکے اسے اس مستقل روزگار سے جو اس کا واحد ذریعہ آمدنی تھا محروم کردیتے ہیں۔

عوام نے ہماری قیادت میں، اشرافیہ کو، جو خود اپنی غرض کے لئے مزدوروں کا واحد دفاع اور سرپرست تھی کھینچ کے گاڑدیا۔ اشرافیہ کا اپنا مفاد مزدوروں کی خوشحالی میں تھا، اشرافیہ کے خاتمے کے بعد، عوام بےرحم، زرپرست بدمعاشوں کے چنگل میں پھنس گئے جنہوں نے عوام کے کندھوں پر ظالم اور رحم جوار رکھ دیا۔

اب اس موقعہ پر ہم مزدور کے استحصال کے خلاف اس کے نجات د ہندہ کے روپ میں ظاہر ہوتے ہیں اور یہ تجویز پیش کرتے ہیں کہ وہ ہماری متحارب قوتوں یعنی اشتراکیہ، نراجیوں اور اشتمالیوں (ملٹی نیشنل کمپنیوں، این جی اوز وغیرہ) کے ساتھ مل جائے جن کی مدد ہم ایک نام نہاد برادری (تمام بنی نوح انسان کا اتحاد "اقوام متحدہ") کے اصول کے مطابق اپنی سماجی" فری میسن تحریک "کے توسط سے کرتے رہتے ہیں۔


اب ایک مرتبہ پھر انتہائی غور سے پڑھنے کی درخواست ہے ، اب صیہونی دانا بزرگ غیر یہودیوں کے علاوہ دنیا کی تمام اقوام کی نسل کشی کرنے پر زور دیتا ہے جس میں مزدور طبقہ کو بھی نہیں بخشا جاتا۔ یہودی انتہائی بےرحم اور  سفاک قاتل ہوتے ہیں، یاد رہے آج دنیا کے امیر ترین شخص "بل گیٹس" کے ساتھ مل کر یہودی دنیا کی آبادی کنٹرول کرنے کے نئے نئے قتل کے پروگرام شروع کررہے ہیں، یہ اسی نسل کشی ایجنڈے کے مطابق ہورہا ہے۔ دنیا میں جو غذائی قلت ہے اس کے پیچھے بھی یہی صیہونی ہیں اس کا ذکر بھی نیچے پڑھیے جبکہ نئے خطرناک وائرس جیسے ایبولا، سوائن فلو، ایڈز، کھی لونا وغیرہ بھی انہوں نے ہی تخلیق کرواکے پھیلائے تاکہ غیر یہودیوں کی نسل کشی کی جائے۔ اب غور سے پڑھیے)۔

اشرافیہ جو قانونی طور پر مزدوروں سے مزدوری کروانے کی حقدار تھی وہ یہ چاہتی تھی کہ مزدوروں کو پیٹ بھر کے روٹی ملے تاکہ وہ صحتمند اور توانا رہیں۔ ہمارا مفاد اس کے بالکل برعکس ہے۔ غیر یہودی کی تعداد میں کمی اور ان کی نسل کشی سے ہمارا مفاد وابستہ ہے۔ ہم اپنی قوت، دائمہ غذائی قلت مزدوروں کی جسمانی کمزوری سے  حاصل کرتے ہیں۔ کمزور ہونے کی وجہ سے مزدور ہماری مرضی کا غلام بنتا ہے۔ اس کے اپنے ذی اقتدار افراد میں وہ قوت اور طاقت نہیں ہے کہ وہ مزدوروں کو ہماری مرضی کے خلاف صف آرا کرسکیں۔ بھوک، سرمایہ دار کو مزدور پر حکومت کرنے کا اس سے زیادہ حق دیتی ہے جتنا شاہی اقتدار نے قانون کے ذریعے اشرافیہ کو دیا تھا۔ ہم احتیاج، نفرت اور حسد کے ذریعہ جو اس عمل سے وجود میں آتے ہیں، عوام کو اُکسائیں گے اور ان کے ہاتھوں سے اپنے راستے میں آنے والی تمام رکاوٹوں کو ملیامیٹ کردیں گے۔ جب ہماری مطلق العنان حکمران  عالم (دجال) کی تاجپوشی کا وقت آئے گا تو یہی لوگ ہوں گے جو ہمارے راستے میں حائل ہونے والی تمام رکاوٹوں کو ملیا میٹ کردیں گے۔ جب ہمارے مطلق العنان حکمران عالم(دجال) کی تاجپوشی کا قت آئے گا تو یہی لوگ ہوں گے جو ہمارے راستے میں حائل ہونے والی تمام رکاوٹوں کو تہس نہس کریں گے۔

غیر یہود تفکر کی صلاحیت سے محروم ہیں اور یہ اس وقت تک نہیں سوچتے جب تک ہمارے ماہرین اپنی کوئی تجویز پیش کرکے ان کے ذہنوں میں تحریک پیدا نہ کردیں۔ اس لئے وہ ہماری طرح اس بات کی فوری ضرورت محسوس ہی نہیں کرتے کہ جب ہماری بادشاہت قائم ہوگی تو سب سے پہلے ہم کیا کام کریں گے۔ وہ کام یہ ہے اور یہ بڑی اہمیت کا حامل ہے کہ قومی تعلیمی اداروں میں ایک سادہ بنیادی علم پڑھانا شروع کیا جائے گا وہ علم جو حق پر مبنی ہے۔ وہ علم جو سارے علوم کا منبع ہے۔ اور وہ ہے حیات انسانی  کی ساخت کا علم۔ معاشرتی وجود جو تقسیم کار کا متقضی ہے اور جس کے نتیجے میں انسانوں میں طبقاتی تقسیم وجود میں آتی ہے۔

ہر شخص کے لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ حلقہ عمل کے معروضی اختلافات کی وجہ سے انسانوں میں مساوات ممکن ہی نہیں ہے۔ وہ فرد جو اپنے کسی فعل سے ایک پورے طبقے کے حقوق کا سودا کرسکتا ہے، قانون کی نظر میں اس شخص کے برابر ذمہ دار نہیں ہوسکتا جس کے کسی فعل سے صرف اس کی ذات پر حرف آتا ہو۔ معاشرے کی ساخت کا صحیح ادراک (جس میں ہم غیر یہودیوں کو شامل نہیں کرتے) اس بات کا متقضی ہے کہ لوگوں کا منصب اور دائرہ کا ر صرف ایک مخصوص حلقہ افراد میں ہی محدود رکھا جائے تاکہ عوام، ایسا علم حاصل کرے جو ان سے لئے جانے والے کام سے تطاقب (ممثالت )نہیں رکھتا، دوسروں کے لئے مصیبت کا ذریعہ نہ بن جائیں۔

اس علم کے تفصیلی مطالعہ کے بعد لوگ رضاکرانہ طور پر اقتدار کی اطاعت کریں گے اور وہ اپنی وہ حیثیت قبول کرنے پر مجبور ہوں گے جس پر انہیں فائز کیا جائے گا۔

ادراک کی موجودہ کیفیت میں اور نہج کی وجہ سے جو ہم نے اس کے نشو و نما کودی ہے، لوگ بےسوچے سمجھے ہر لکھی ہوئی چیز پر ایمان لاکر اسے سینے سے لگاتے ہیں ۔ عوام کو طبقات یا حالات کی فہم نہیں۔ لہٰذ اول تو اس ترغیب کی وجہ سے جو ہم نے انہیں غلط را ہ پر ڈالنے کے لئے دی ہے دوسرے خود  اپنی لاعلمی کی وجہ سے، ان تمام حالات کے خلاف جو عوام کی دسترس سے باہر ہوں گے ان میں ایک اندھی نفرت جنم لے گی۔ یہ نفرت ان معاشی بحرانوں کی وجہ سے اور بڑھے گی جو اسٹاک ایکسچینج کا کاروبار بند کرواکے صنعتی اداروں میں تالے ڈلوائیں گے۔

 اب آگے دستاویز میں معاشی بحران پیدا کرنے کے گر سکھائے جاریے ہیں، غور سے پڑھیے اور یاد رہے یہاں مزدوروں سے مراد نوکری پیشہ افراد ہیں۔

ہم اپنے خفیہ زیر زمین ذرائع اور وہ دولت استعمال کرکے جس کا ارتکاز ہمارے ہاتھوں میں ہے، زبردست "عالمگیر معاشی بحران" پیدا کریں گے اور ساتھ ہی یورپ کے ملکوں کی سڑکوں کو مزدوروں کی فوج سے بھردیں گے۔

مزدوروں کے یہ ہجوم ان لوگوں کا خون خوشی سے بہانے کے لئے بےتاب ہوں گے جن سے وہ اپنی سادگی اور لاعلمی کی وجہ سے بچپن سے ہی حسد کرتے رہے ہوں گے۔ اب انہیں یہ موقع مل جائے گا کہ وہ ان کی دولت اور املاک کو لوٹیں۔ چونکہ حملے کے وقت کا علم صرف ہمیں ہی ہوگا اور اس کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم اپنی املاک کے تحفظ کا پیشگی بندوبست کرچکے ہوں گے لہٰذہ ہماری املاک کو وہ ہاتھ نہیں لگاسکیں گے۔

یہاں ایک انتہائی اہم بات نوٹ کریں، اوپر کے الفاظ میں صیہونی اعتراف کرتا ہے کہ وہ جب بھی حملہ کریں گے تو اپنے لوگوں کو پہلے ہی محفوظ مقام پر منتقل کردیں گے کیونکہ حملے کا صحیح وقت صرف انہی کو معلوم ہوتا ہے۔ کیا آپکو معلوم ہے کہ امریکہ میں جب نائن الیون حملے ہوئے تو "ورلڈ ٹریڈ ٹاوز "میں بیشمار یہودی بھی کام کرتے تھے لیکن حملے کے دن اور عین وقت پر تمام کے تمام یہودی وہاں سے غائب تھے۔ یہ ایک واضع ثبوت ہے کہ نائن الیون حملہ صیہونیوں نے خود کروایا تھا۔

اب آگے پڑھتے ہیں ۔ ۔ ۔


ہم یہ ثابت کرچکے ہیں کہ ترقی کے ساتھ ساتھ غیر یہود "منطق کی بالادستی" تسلیم کرتے چلے جائیں گے۔ یہی درحقیقت ہماری مطلق العنانی ہوگی۔ چونکہ غیر یہود خود ان پیدا ہونے والی شورشوں کو سختی سے کچل دینے کے قابل ہوچکے ہوں گے، تمام اداروں سے آزاد خیالی کا خناس یکسر نکال کر پھینک دیا جائے گا۔

عوام جب یہ دیکھیں گے کہ آزادی کے نام پر ہر قسم کی مراعات حاصل کی جاسکتی ہیں تو وہ بزعم خود یہ سمجھنے لگیں گے کہ انہوں نے اپنی حاکمیت خود اپنے زوربازو سے حاصل کی ہے لیکن اسی کوتاہ بینی اور کورچشمی کی وجہ سے انہیں قدم قدم پر ٹھوکریں کھانی پڑیں گی اور پھر انہیں کسی راہبر کی تلاش ہوگی۔ اب پچھلی صورت حال پر واپسی کے تمام راستے مسدود ہوچکے ہوں گے اور اس طرح کلی اختیارات ہمارے قدموں تلے آجائیں گے۔

اب آگے دستاویز میں "انقلاب فرانس" کی اصلیت بتائی جائے گی۔ اس انقلاب کے پیچھے انہیں کا ہاتھ تھا۔

آپ کو فرانسیسی انقلاب یاد ہے۔ اسے ہم نے "انقلاب عظیم" کا نام دیا تھا،  اس انقلاب کی تیاری کے رازوں سے صرف ہم ہی واقف تھے اور سب کچھ ہمارا ہی کیا دھرا تھا۔ اس وقت سے لیکر آج تک ہم عوام کو مسلسل یکے بعد دیگرے محرومیوں اور نااُمیدیوں سے دوچار کررہے ہیں تاکہ آنکہ آخر میں وہ ہم سے بھی بددل ہوکر اس مطلق العنان بادشاہ  کی اطاعت قبول کرلیں جو صیہونی نسل سے ہوگا اور جسے ہم دنیا کے لئے تیار کر رہے ہیں۔ موجودہ دور میں ہم ایک بین الاقوامی طاقت کی حیثیت سے ناقابل تسخیر ہوچکے ہیں۔ اگر کوئی ملک ہمارے اوپر حملہ آور ہو تو دوسرے ممالک ہماری مدد کرنے کو کود پڑتے ہیں۔

قارئین ۔۔۔۔ اوپر جس "مطلق العنان بادشاہ" کا ذکر کیا ہے وہ یا تو دجال ہے یا پھر اس سے پہلے ہونے والا ایک بادشاہ ہے جسے مسیحہ بھی کہتے ہیں جو پوری دنیا پر حکومت کرے گا۔ صیہونیوں کا منصوبہ ہے کہ اقوام متحدہ کو ایک عالمی حکومت (سپر گورنمنٹ) میں تبدیل کردیا جائے ۔ اگر ایسا ہوجائے تو اقوام متحدہ کے تمام بین الاقوامی ادارے خود بخود وزارتوں میں تبدیل ہوجائیں گے اور اقوام متحدہ کو ایک بادشاہ چلائے گا جو صیہونی نسل سے ہوگا جس کی حکومت پوری دنیا پر ہوگی۔ جس طرح آج کوئی ملک اقوام متحدہ کے فیصلے ماننے سے انکار نہیں کرسکتا اسی طرح اقوام متحدہ کا عالمی حکومت بننے کے بعد اس صیہونی بادشاہ کے تمام فیصلے بھی ماننے پڑیں گے۔ 

اب مزید آگے پڑھیے ۔۔

غیر یہودی قوموں کا یہ انتہائی سلفہ پن ہے کہ وہ طاقت کے سامنے تو اپنی ناک رگڑتے ہیں لیکن کمزوروں کے ساتھ بےرحمی سے پیش آتے ہیں۔ کسی غلطی کو تو معاف نہیں کرتے لیکن جرائم کی پرورش کرتے ہیں۔ آزاد معاشری نظام کے تضادات سننے کے لئے تیار نہیں ہوتے لیکن ڈھٹائی سے ظلم کرنے والے آمروں کے تشدد کا شکار ہونے والے شہیدوں پر صبر کرتے ہیں۔ ان کی یہی خصوصیات آزادی کی تحریکوں کی مدد کرتی ہیں۔ موجودہ دور کے درجہ اول کے آمروں کو غیر یہود صبر سے برداشت کرتے ہیں اور ان کی ایسی غلط کاریوں سے صرف نظر کرلیتے ہیں جن کے لئے پہلے وہ بیس بادشاہوں کے سرقلم کرسکتے تھے۔

اس غیر معمولی رویہ کی کیا توجیع پیش کی جاسکتی ہے؟ آخر ان حالات میں اب عوام کے کان پر جوں کیوں نہیں رینگتی حالانکہ بادی الانظر میں ھالات ویسے ہی ہیں۔

اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ ان آمروں نے اپنے کارندوں کے ذریعہ عوام میں یہ مشہور کرادیا ہے کہ اختیارات کے استعمال میں تجاوز کے ذریعہ ایک عظیم مقصد کے لئے حکومتوں سے نفرت پیدا کروائی جارہی ہے اور وہ مقصد ہے عوام کی فلاح و بہبود اور ان کی خوشحالی۔ اس طرح ایک عالمی برادری تشکیل دے کر اور انہیں متحد کرکے عوام کو مساوی حقوق دلوائے جاسکیں گے۔ یہ آمر اصل بات نہیں بتاتے کہ ایسا اتحاد صرف ہماری خودمختار حکمرانی کے ذریعہ ہی ممکن ہے۔

اس طرح لوگ صاف گوئی پر ملامت کرتے ہیں اور مجرم کو بری کردیتے ہیں اور یوں مجرموں کو اور شہ ملتی ہے کہ وہ جو چاہیں کریں۔ بھلا ہو ان حالات کا، لوگ ہر طرح کے استحکام کو غارت کرکے ہر قدم پر بدنظمی اور نتشار پیدا کر رہے ہیں۔

"آزادی" کا لفظ لوگوں کو ہر طاقت سے نبردآزامائی پر اکساتا ہے۔ ہر قسم کے اقتدار کی نفی کرتا ہے۔ یہاں تک کہ خدا اور قانونِ قدرت سے بھی بغاوت کراتا ہے۔ اس لئے جب ہماری حکومت قائم ہوگی تو ہم اس لفظ کو زندگی کی لغت سے یکسر خارج کردیں گے۔ ہمارے ہاں یہ لفظ ایک ظالم اور بےضمیر طاقت کے مترادف ہوگا۔ ایسی طاقت جو انسانوں کو خون آشام درندوں میں تبدیل کردیتی ہے۔

یہ درست ہے کہ درندہ جب شکار کا خون پی کر اپنی پیاس بجھا لیتے ہیں تو ان پر نیندکا غلبہ ہوجاتا ہے اور اس وقت انہیں زنجیروں میں جکڑا جاسکتا ہے۔ لیکن اگر انہیں خون پینے سے باز رکھا جائے تو وہ سونے کے بجائے شکار کی تلاش میں سرگرداں پھرتے ہیں۔

یہاں پر تیسری دستاویز "تسخیر کا طریقہ کار" ختم ۔ہوئی

یقیناَ آج آپ نے اس دستاویز سے بہت کچھ سیکھا ہوگا ۔ کچھ باتیں سمجھ آئی ہوں گے اور کچھ سر سے اوپر بھی گزر گئی ہوں گے۔

دراصل قوم یہود ایک وقت میں اللہ کی پسندیدہ ترین قوم رہی ہے، یہ بہت ذہین قوم تھی اور اب بھی ہے  یہکیونکہ شیطان ان کے ساتھ ہے۔ جس صیہونی نے دستاویز لکھی ہیں وہ قوم یہود کا سب سے ذہین دماغ ہے۔ دراصل صیہونی تنظیم الیومیناٹی کی بھی درجہ بندیاں ہوتی ہیں اور جس نے دستاویز لکھی ہیں وہ ان درجوں پر سب سے اوپر اور صرف دجال سے نیچے ہے۔ اس کا لکھا ایک ایک لفظ اپنے اندر کئی باتیں بیان کرتا ہے۔ صرف عقلمند اور ذہین لوگ ہی اس دجال کی اولاد کو سمجھ سکتے ہیں۔ اگر آپ کو کچھ سمجھ نہیں آیا تو ضرور کمنٹ کرکے سوال پوچھیں، یا اگر آپ صیہونی الیومیناٹی فری میسن کے متعلق مزید کچھ جانتے ہیں تو ہماری معلومات میں اضافہ ضرور کریں۔

تحریر: یاسررسول

Comments