کیا مکہ اور کعبہ جعلی ہیں؟

ڈین گبسن نامی ایک غیر مسلم آرکیالوجسٹ (ماہر آثار قدیمہ) نے اسلامی دنیا کو ہلاکے رکھ دیا ہے. گبسن نے جدید ترین ٹینکالوجی کا استعمال کرکے یہ ثابت کیا ہے کہ "کعبۃ اللہ" اور "مکۃ المکرمہ" کی موجودہ جگہ غلط ہے.

یعنی پہلے "کعبہ" اور "مکہ" دونوں کسی اور جگہ پر تھے جنہیں بعد میں مکہ کی موجودہ جگہ منتقل کیا گیا.

دوسری جگہ کونسی ہے اس بارے بھی ڈین گبسن نے جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے بتایا ہے کہ وہ جگہ PATRA ثابت ہورہی ہے.

پیٹرا ہی اصل جگہ کیوں ہے؟

اسے ثابت کرنے کے لیے گبسن نے کسی انگریزی کتاب کا حوالہ نہیں دیا بلکہ ہماری اپنی اسلامی کتابوں بشمول قرآن پاک سے ثبوت کے انبار لگادیے ہیں.

اس پوری تحقیق کو گبسن نے ایک ڈاکومینٹری کی صورت پیش کیا ہے جس کا نام ہے.

The Sacred City of Mecca? Have we got it wrong

یہ ڈاکومینٹری اسی نام سے ٹریکس نامی یوٹیوب چینل پر موجود ہے.

گبسن کی پوری تحقیق کا بنیادی نقطہ یہ ہے کہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کے شروعاتی 100 سال تک دنیا بھر میں جو بھی مساجد بنائی گئیں ان سب کا قبلہ موجودہ کعبہ کی طرف نہیں بلکہ ایک اور جگہ "پیٹرا" کی طرف ثابت ہورہا ہے جسے گبسن نے جدید جدید ٹیکنالوجی جیسا کہ ناسا کے سیٹلائٹ یا جی پی ایس کے زریعے ڈائریکشن سے ثابت کرکے دکھایا ہے.

گبسن کی تحقیق کے مطابق دنیا میں سب سے پہلی مسجد جس کا قبلہ موجودہ کعبہ کی طرف رکھا گیا وہ پاکستان کے علاقے بھمبھور میں واقع ہے لیکن یہ مسجد اسلام کے شروعاتی 100 سالا دور کے بعد بنائی گئی تھی. یاد رہے بھمبھور میں واقع اس مسجد کو ایشیا کی سب سے پہلی مسجد کہا جاتا ہے.

گبسن کا دوسرا اہم نقطہ یہ ہے کہ مکہ مکرمہ کے فضائل میں قرآن و حدیث میں جو علامات بتائی گئی ہیں وہ موجودہ مکہ پر پورا ہی نہیں اترتیں. اس نے باقائدہ وڈیو کی صورت ایک ایک چیز وضاحت سے پیش کی ہے. وہ کہتا ہے وہ تمام فضائل پیٹرا نامی کھنڈرات پر پورا اترتے ہیں. یہ اسکے لیے بھی حیران کن تھا.

اسکے علاوہ گبسن نے بیشمار قرآنی آیات، احادیث، اسلام سے پہلے اور بعد کے واقعات پر انتہائی باریک بینی سے مشاہدہ کرکے انہیں جدید سائنسی آلات سے ناپ کر معلوم کرنے کی کوشش کی کہ کیا موجودہ مکہ اپنی اسی اصل جگہ پر ہے جن کا ذکر قرآن میں ہے؟ گبسن کی تحقیق اسے بتاتی ہے کہ یہ وہ جگہ نہیں ہے.

گبسن نے اٌموی اور عباسی خلیفوں کی تاریخ، جنگی ادوار اور وہاں تعمیر ہونے والی ابتدائی مساجد کا خود بھی تحقیقی جائزہ لیا، اس نے چین سے لیکر انڈیا پاکستان تک تمام پرانی مساجد کا مطالعہ کیا، 30 سال عرب ممالک میں موجود پرانی مساجد پر گہری ریسرچ کی اور ان سب کو جدید سائنسی اوزاروں، ناسا کی سیٹلائیٹ اور  جی پی ایس سے ناپ طول کر دیکھنے کی کوشش کی کہ آیا ان مساجد کا قبلہ کس طرف جاتا ہے. گبسن یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ شروعاتی 100 سالا دور کی تمام مساجد کا قبلہ موجودہ کعبہ کی طرف نہیں بلکہ اردن میں واقع "پیٹرا" نامی شہر کی طرف ہے. جبکہ اسے معلوم ہوا کہ بعد میں یعنی 100 سالا دور کے بعد بننے والی تمام مساجد کا قبلہ موجودہ کعبہ کی طرف ہی ملتا ہے. اس سے گبسن نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کعبہ کی جگہ کو کسی نہ کسی نے بدل دیا تھا.

تو گبسن پوچھتا ہے کہ شروعاتی 100 سالا دور کی تمام مساجد کا قبلہ درست تھا یا بعد والی مساجد کا ؟

یہ صرف ایک بات ہے، ہم گبسن سے اتفاق نہیں کرتے لیکن اسے ریسرچ کے میدان میں جواب دینا بھی ہم پر فرض ہے.

گبسن نے ایسے بےشمار نقطے اٹھائے ہیں جن کی روء سے اسکی ڈاکومینٹری دیکھ کر بظاہر یہی محسوس ہوتا ہے کہ اسلامی تاریخ لکھنے والوں نے ایک سال کی تاریخ حذف کی ہے جسکا فائدہ گبسن نے اٹھاکر سوالات کھڑے کردیے ہیں.

گبسن اپنی تحقیق کی بنیاد پر رائے دیتا ہے کہ ممکن ہے جس سال کی تاریخ غائب ہے اسی سال کعبہ کو شہید کرکے دوسری جگہ منتقل کیا گیا ہوگا. اس بارے گبسن اسلامی کتابوں سے ہی زبیر نامی ایک شخص کا حوالہ دیکر بتاتا ہے کہ اس نے کعبہ کو نعوذباللہ توڑ دیا تھا اور حجر اسود وہاں سے اٹھاکر اسے دوسری جگہ (موجودہ مکہ) پر دوبارہ کعبہ تعمیر کرکے وہاں نصب کردیا. گبسن کے مطابق اسکے بعد تعمیر ہونے والی مساجد کا قبلہ نئے کعبہ کی طرف ہی کردیا گیا. لیکن گبسن کو کچھ ایسی مساجد بھی ملی ہیں جن میں دونوں طرف قبلہ رخ پائے گئے اور کچھ ایسی بھی ملی جن میں دونوں کے بجائے بیچ کا قبلہ پایا گیا. گبسن کہتا ہے ممکن ہے کچھ لوگوں نے زبیر کا نیا قبلہ اختیار کیا ہوا، کچھ نے پرانے پر اکتفا کیا ہو اور کچھ ایسے ہوں جنہوں نے دونوں کو چھوڑ کر بیچ کا راستہ اپنایا ہو.

مزے کی بات یہ ہے کہ گبسن اپنی تحقیق میں مسجد اقصی کا پرانا حصہ بھی دکھاتا ہے اور بتاتا ہے کہ اسکا قبلہ بھی موجودہ کعبہ کی طرف نہیں بلکہ پیٹرا کی طرف ہے جبکہ مسجد کی بعد میں تعمیر کی گئی عمارت کا قبلہ موجودہ کعبہ کی طرف ہی ہے. تو وہ پوچھتا ہے کہ ایسا کیوں ہے ؟؟

گبسن نے ہر بات کا ثبوت اسلامی کتابوں سے ہی دیا ہے جس پر مجھے حیرانگی بھی ہوئی کیونکہ وہ غیر مسلم ہوکر بھی ہماری تاریخ کے متعلق اتنا جانتا ہے کہ جتنا ہمیں بھی علم نہیں. دراصل اس نے عرب ممالک میں 30 سال کھنڈرات کی تاریخ معلوم کرنے میں گزارے ہے. اسکا دادا اور والد بھی ماہر آثار قدیمہ ہی تھے یعنی گبسن نسلی و خاندانی ماہر آثار قدیمہ ہے۔


وہ کہتا ہے کہ میں نے اپنی ریسرچ سعودی علماء و اسکالرز کے سامنے بھی پیش کی اور انکے سامنے یہی سوالات اٹھائے لیکن وہاں سے جواب ملا کہ ہمارے پاس پرانا ریکارڈ نہیں ہے لہذہ ہم لاجواب ہیں.

میں گبسن کی تحقیق سے مکمل اتفاق نہیں کرتا لیکن میں اسے رد بھی نہیں کر پا رہا بلکہ اس نے مزید سوچنے پر مجبور کردیا ہے. یعنی یہ کہ اسلامی تاریخ میں کوئی جھول ضرور موجود ہے جس کا فائدہ گبسن نے اٹھایا. کل کو اسی جھول کا فائدہ صیہونی اور اسلام دشمن قوتیں بھی اٹھا سکتی ہیں. اب اگر علماء اور مذھبی ریسرچ اسکالرز نے گبسن کے سوالات کا تفصیلی جواب نہ دیا تو یقینا اس سے مسلمانوں کو ہی نقصان ہوگا.

چونکہ ریسرچ انگلش میں ہے اس لیے اردو بولنے والے پاکستانی اور انڈین مسلمانوں کو شاید اس تحقیق کا علم ہی نہیں ہے لیکن میں نے گبسن کو لاجواب کرنے کے لیے تحقیق شروع کرنے کا ارادہ کیا ہے اور اس مقصد کے لیے مجھے پڑھے لکھے انگلش جاننے والے علماء اور مذھبی سکالرز کی مدد درکار ہے.

ذاتی طور پر کبھی آرکیالوجی یعنی آثار قدیمہ پر ریسرچ میں مجھے دلچسپی نہیں رہی لیکن گبسن کی ڈاکومینٹری دیکھنے کے بعد اس فیلڈ کی پہلی دفعہ اہمیت کا اندازہ ہوا ہے. یعنی کھنڈرات کا مطالعہ کرکے ہم جدید ٹیکنالوجی سے وہاں زندگی گزارنے والوں کی مکمل طرز حیات بلکہ ہر چیز کے بارے میں جان سکتے ہیں.

 گبسن کہتا ہے ہم کسی بھی جگہ کی مٹی کو لیبارٹری میں جدید ٹیکنالوجی کے زریعے ٹیسٹ کرکے آسانی سے بتاسکتے ہیں کہ وہاں پہلے کبھی سبزہ تھا یا نہیں، پانی کا وجود تھا یا نہیں، درخت تھے یا نہیں یا وہاں کبھی بارش ہوئی تھی یا نہیں. اسی طرح اس نے مکہ کی مٹی کو بھی لیبارٹری میں ٹیسٹ کیا تو اسے معلوم ہوا کہ مکہ میں کبھی بھی درخت یا سبزہ نہیں اگا، نہ ہی کھیتی باڑی کا یہاں کوئی وجود تھا لیکن وہ کہتا ہے کہ اسلامی کتابوں سے مکہ کے بارے میں لکھا ہے کہ وہاں کھیتی باڑی ہوتی تھی. تو یہاں بھی وہ سوال کرتا ہے کہ کیا موجودہ مکہ واقعی وہی مکہ ہے؟ اگر وہی ہے تو نشانیاں کیوں نہیں ملتیں؟

یہاں وہ پھر سوالیہ نشان لگادیتا ہے جس کا جواب اسلامی تاریخ سے بھی نہیں ملتا کیونکہ اسلامی اسکالرز کا کہنا پے کہ پمارے پاس پرانا ریکارڈ نہیں جبکہ گبسن کہتا ہے کہ اسلامی تاریخ سے ایک سال کی تفصیلات کسی نے جان بوجھ کر حذف کیں یا کروائی تھیں۔۔۔۔ گبسن نے ایسے ہی بیشمار سوالات کھڑے کیے ہیں.

گبسن کہتا ہے کہ اس نے اپنی تحقیق دنیا کے بڑے بڑے اسلامی اسکالرز اور مذھبی اداروں کے سامنے رکھی ہے لیکن بدقسمتی سے ابھی تک کوئی مسلمان اسکالر اس کے پیش کردہ ثبوتوں کو رد نہیں کرسکا یا تسلی بخش جواب نہیں دے رہا.

چند غیر مسلم عالمی آرکیالوجسٹس جیسے گوگل میپ کے خالق نے گبسن کی تحقیق پر کچھ زاویوں سے جیسے جی پی ایس لوکیشن کی فکس اکیوریسی وغیرہ پر تنقیدی مقالے لکھے ہیں لیکن گبسن نے ان کا بھی تین وڈیوز پر مشتمل الگ سے تفصیلی جواب دیا ہے جسے سننے کے بعد میں سمجھتا ہوں کہ گبسن کی تحقیق واقعی کافی وزن رکھتی ہے لیکن ایسا بھی نہیں کہ اسکی تحقیق کو رد نہیں کیا جاسکتا.

مجھے کسی ماہر اسکالر کی مدد کی ضرورت ہے تاکہ گبسن کی تحقیق میں اٹھائے گئے سوالات کا قرآن و حدیث سے تفصیلی جواب حاصل کیا جاسکے یا جوابی ڈاکومینٹری بناکر اسے غلط ثابت کیا جاسکے.

یاد رہے گبسن کے والد اور داد بھی آرکیالوجسٹ تھے، یہ خاندان تیسری نسل سے کھنڈرات کی کھوج لگانے اور پچھلی اقوام کے بارے میں تحقیق میں مصروف رہا ہے. یہ خاندان ہی ماہران آثار قدیمہ پر مشتمل ہے. اس حساب سے ہم یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ گبسن کوئی نیا بندہ ہے یا یہودیوں کا ایجنٹ ہے جو اسلام کو بدنام کر رہا ہو.

پہلے پہل مجھے بھی یہ عالمی صیہونی سازش کا حصہ محسوس ہوا. جس کے تحت مسلمانوں کو "کعبۃ اللہ" اور "مکہ مکرمہ" سے بدظن کرنے کی کوشش کی جارہی ہو لیکن گبسن کو جتنا زیادہ دیکھا، سنا، سمجھا، اور اس پر جتنی تحقیق کی، میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اسلامی تاریخ کے شروعاتی 100 سالا دور میں ضرور کہیں نہ کہیں ضرور جھول ہے جس کی بنیاد پر ہی گبسن نے جدید ترین ٹیکنالوجی کا استعمال کرکے "کعبہ اللہ" اور "مکہ المکرمہ" کی موجودہ جگہ کو جعلی قرار دیکر اصل لوکیشن Patra نامی کھنڈرات پر مشتمل ایک شہر بتایا ہے.

یہ پورے عالم اسلام کے لیے حیرت انگیز تحقیق اور اسلامی سکالرز کے لیے سوالیہ نشان ہے۔

میرا ایمان ہے کعبہ اللہ شروع سے لیکر آج تک ایک ہی جگہ پر موجود ہے. سورہ فیل میں ہاتھیوں کے لشکر کی تباہی سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ اللہ اپنے گھر کی حفاظت خود فرماتا ہے. لیکن گبسن نے جو سوال اٹھائے اور جو ثبوت پیش کیے ہیں (جو کہ مکمل طور پر اس تحریر میں نہیں لکھے البتہ ڈاکومینٹری میں دیکھے جاسکتے ہیں) ان سب کو دیکھتے ہوئے میرے پاس کوئی ایسا ثبوت نہیں بچتا جس سے میں گبسن کو غلط ثابت کرسکوں.

اہل علم علماء اور اسلامی سکالرز سے درخواست کرتا ہوں کہ گبسن ک انگلش ڈاکومینٹری کو لازمی دیکھیں، اسے غور سے سنیں، اسکے پیش کردہ تمام ثبوت دیکھیں، اسکی پچھلی تحقیقات بھی پڑھیں اور پھر اس کے رد میں کوئی مضبوط مقالہ لکھ کر اسلام پر احسان عظیم فرمائیں. مقالہ نہیں لکھا جاسکتا تو کم سے کم سوالات کا جواب ہی دیدیں لیکن خدارا خاموش مت رہیں۔

ااگر آپ خاموش رہے ہا میرا کیا مسئلہ کی طق اپنائی تو پہلے سے ہی اسلام سے بدظن لبرل طبقہ کہیں کعبۃ اللہ کے خلاف مہم ہی نہ شروع کردے کہ تمہارا کعبہ جعلی ہے اوربطور ثبوت وہ گبسن کی تحقیق پیش کردیں تو عام مسلمانوں کے پاس اسکے رد کا کیا جواب ہوگا۔۔۔۔!! 

اس سے پہلے کہ آگ مزید پھیلے ہمیں فتنے کی سرکوبی کا بروقت سامان کرنا ہوگا. امید ہے اہل علم رہنمائی فرمائیں گے. علماء مجھ سے رابطہ کرنے کے لیے ای میل کریں 👇

Yasirrasool1947@gmail.com 

تحریر : یاسررسول


نوٹ : گبسن کی تحقیق کو خاکسار نے اردو ترجمہ کرکے پی ڈی ایف پاکی بنائی ہے لیکن یہ کاپی صرف اہل نظر علماء کو ہی جستی کروں گا، عام لوگوں کو جاری نہیں کی جاسکتی ورنہ لوگ اپنے ہی قبلے دے بدظن ہوجائیں گے۔ علماء ای میل پر رابطہ کریں  اگر آپ کسی ایدے بین الاقوامی مسلم سکالر کو جانتے ہیں تو ان تک یہ مسئلہ ضرور پہنچائیں یا میری ان سے بات کروادیں تاکہ کسی طرح گبسن کی تحقیق کا رد کیا جاسکے.

The Sacred City of Mecca: Have We Got It Wrong? | TRACKS

....

تبصرے

  1. ڈین گبسن کی تحقیق درست ھے

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. اس کی ساری تحقیق وڑ جاتی ہے جب بات زمزم کے کنویں کی آجائے کیونکہ زم زم ابھی تک کعبہ کے پاس ہی موجود ہے اسکی بتائی ہوئی دوسری وادی میں نہیں ہے

      حذف کریں

ایک تبصرہ شائع کریں