پوپ فرانسس کی وفات — ایک زندگی، ایک پیغام، اور ایک انجام

 


پوپ فرانسسز کا انتقال — ایک حقیقت جس نے دنیا بھر کے مسیحی اور غیر مسیحی افراد کو چونکا دیا۔ 2 مارچ کو پہلے ہی اطلاعات آچکی تھیں کہ پوپ فرانسسز کی طبیعت نہایت تشویشناک ہے، اور کسی بھی لمحے ان کا انتقال ہوسکتا ہے۔ ان کے جسم میں مختلف پیچیدہ بیماریاں پروان چڑھ چکی تھیں جن کا علاج جدید سائنس بھی تلاش نہیں کر پائی۔

پوپ فرانسسز کا شمار دنیا کے سب سے طاقتور مذہبی رہنماؤں میں ہوتا تھا، لیکن زندگی کے آخری لمحوں میں ان کی تمام تر طاقت، شہرت، دولت اور اثرورسوخ کسی کام نہ آسکے۔ حقیقت یہی ہے کہ موت سب کی برابری کرتی ہے۔

ایک دلچسپ پہلو یہ بھی رہا کہ پوپ فرانسسز، جنہوں نے ساری زندگی مختلف تقریروں، ملاقاتوں اور بیانات میں دنیا کے اہم مسائل پر تبصرہ کیا، انہوں نے فلسطین، کشمیر یا غزہ جیسے مسائل پر ہمیشہ خاموشی اختیار کی۔ یہ وہ خطے ہیں جہاں انسانیت کو ظلم کا سامنا ہے، لیکن عالمی سطح کے مذہبی رہنما ہونے کے باوجود، پوپ نے ان مسائل پر کھل کر آواز نہیں اٹھائی۔

تاہم، ان کی زندگی کے آخری دنوں میں، جب موت ان کے قریب محسوس ہوئی، تو انہوں نے اپنی آخری تقاریر میں غزہ کا ذکر کرتے ہوئے سیزفائر کی اپیل کی۔ بدقسمتی سے ان کی یہ اپیل عالمی طاقتوں کے کانوں تک تو پہنچی، لیکن صہیونیت کی بے حسی نے اسے نظرانداز کردیا۔

دنیا میں کم ہی لوگ جانتے ہیں کہ پوپ فرانسسز کا تعلق ایک خفیہ تنظیم سے بھی تھا، جسے الیومیناٹی کہا جاتا ہے۔ ان کے کپڑوں، علامتی اشاروں، ہاتھ میں اٹھائی اسٹک، ویٹیکن سٹی کی تعمیرات اور دیواروں پر بنی مخصوص علامات سب یہی عندیہ دیتی ہیں کہ موجودہ عیسائیت اپنی اصل شکل سے بہت دور جاچکی ہے۔

موجودہ عیسائیت درحقیقت ایک تحریف شدہ نظریہ ہے، جس میں اللہ کے بندے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا بنا کر پیش کیا گیا۔ مزید یہ کہ عیسائی عقیدے کے مطابق، خدا کی تین شکلیں ماننے کا نظریہ اپنایا گیا، جو کہ سراسر گمراہی اور حقیقت سے انحراف ہے۔ اس عقیدے کی بنیاد پر دنیا بھر میں اربوں انسان گمراہی کی دلدل میں دھنس چکے ہیں۔

اگر پوپ فرانسسز نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں توبہ کی ہوتی اور اسلام قبول کیا ہوتا تو ان کا انجام کچھ اور ہوسکتا تھا۔ لیکن وہ بھی اپنی ضد، ہٹ دھرمی اور دنیاوی مفادات کے پیچھے اتنے اندھے ہوچکے تھے کہ آخری لمحے تک انہوں نے حق کو تسلیم نہیں کیا۔

قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ توبہ اُس وقت تک قبول ہوتی ہے جب تک انسان کی روح حلق تک نہ پہنچ جائے۔ موت کے بعد چاہے انسان کتنی بھی فریاد کرے، اللہ اس کی توبہ قبول نہیں کرتا۔

اللہ پاک سورہ کہف میں فرماتے ہیں

"اور یاد کرو جس دن اللہ فرمائے گا: اب تم میرے ان شریکوں کو پکارو جنہیں تم میرا شریک سمجھتے تھے تو وہ انہیں پکاریں گے لیکن وہ (شریک) انہیں کوئی جواب نہیں دیں گے، پھر ہم ان کے درمیان ہلاکت کی ایک جگہ بنا دیں گے۔" (کہف: 52)

اسی طرح سورہ مائدہ میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

"اور (یاد کرو) جب اللہ فرمائے گا: اے عیسیٰ ابن مریم! کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری ماں کو اللہ کے سوا معبود بنالو؟ تو وہ عرض کرے گا: پاک ہے تو، میرا حق نہیں کہ میں وہ بات کہوں جس کا مجھے حق نہیں، اگر میں نے کہا ہوتا تو تو ضرور جانتا، تو جانتا ہے جو کچھ میرے دل میں ہے اور میں نہیں جانتا جو کچھ تیرے دل میں ہے۔ بے شک تو ہی غیبوں کو جاننے والا ہے۔" (المائدہ: 116)

یہی وہ دن ہوگا جب ان تمام لوگوں کی حقیقت کھل جائے گی جنہوں نے لوگوں کو گمراہ کیا۔ عام عیسائی قیامت کے دن اپنے مذہبی پیشواؤں، پوپس، اور راہبوں کا گریبان پکڑیں گے اور سوال کریں گے کہ تم نے ہمیں گمراہ کیوں کیا؟ لیکن اس وقت پچھتاوے کا کوئی فائدہ نہ ہوگا۔

حقیقت تو یہ ہے کہ موجودہ دنیا میں زیادہ تر مذہبی نظام یا تو سیاست زدہ ہو چکے ہیں یا مفادات کی بنیاد پر چل رہے ہیں۔ ان کے ہاں اصل دین کی تلاش محض ایک خواب ہے۔ ویٹیکن سٹی جیسے مقامات دنیا میں سب سے زیادہ خفیہ اور پُراسرار مقامات میں سے ایک ہیں، جہاں عام عوام کو اصل حقیقت کا پتہ ہی نہیں چلتا۔

پوپ فرانسسز کی وفات ایک سبق ہے کہ دنیاوی شہرت، پیسہ اور طاقت انسان کی آخرت سنوارنے کے لئے کافی نہیں ہیں۔ انسان کی اصل کامیابی اس کے ایمان، عمل اور توبہ میں چھپی ہوتی ہے۔

ہمارے لئے سبق یہی ہے کہ ہم اپنی زندگی کی قدر کریں، سچائی اور حق کی تلاش کریں، اور کسی گمراہی یا جھوٹی تسلی میں زندگی نہ گزاریں۔ اس دنیا کی لذتیں اور فریب چند لمحوں کی خوشی دیتے ہیں، لیکن اصل سکون اور دائمی نجات اللہ اور اس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین میں ہی ہے۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو سچی ہدایت نصیب فرمائے، اور ہمیں اس دنیا کے فریب سے بچائے۔ آمین۔

تحریر: یاسر رسول

 


تبصرے

ایک تبصرہ شائع کریں