صیہونی دانا بزرگوں کی دستاویزات "دی الیومیناٹی پروٹوکولز"
قسط نمبر – 2
(قسط 2 - پہلی دستاویز)
اس سے پہلے کہ 'الیومیناٹی پروٹوکولز' کی پہلی دستاویز پڑھیں، ان دستاویزات کو سمجھنے کے لیے استعمال کیے گئے کچھ اہم الفاظ کی وضاحت جاننا ضروری ہے، صیہونی اپنے تمام کام میں علامات اور نشانیاں ظاہر کرتے ہیں یہاں تک ایک دوسرے کو پہچانتے بھی ان ہی علامات سے ہیں۔ اپنے گھر، دفتر اور شہر کو بھی خفیہ علامات و نشانات کی مناسبت سے ڈیزائن کرتے ہیں۔
آپ اقوام متحدہ کی عمارت دیکھیں، آئی ایم ایف، امریکی صدر کی رہائش گاہ وائٹ ہاوس، یا امریکی محمکہ دفاع کی عمارت پینٹاگان کی عمارت، یہ سب سو فیصد یہودی پروٹوکولز میں بیان کی گئی علامات کی بنیاد پر ہی تعمیر کی گئی ہیں۔ صیہونی ہزاروں علامات استعمال کرتے ہیں جن میں سب سے اہم سانپ ہے، یہ صیہونیت کی عالمی علامت ہے، جبکہ اس کے علاوہ 'سیب' اور 'ایک آنکھ' بھی ان کی مشہور علامت ہیں۔
ایپل کمپنی کے آئی فون پر جو ایپل یعنی سیب ہوتا ہے اور جو "اے فار ایپل" بچوں کو اسکول میں پڑھایا جاتا ہے یہ سب بھی صیہونیوں کے ایجنڈے کے عین مطابق کیا جارہا ہے۔ ان شاء اللہ آہستہ آہستہ ان تمام امور اور علامات پر بھی اگلی قسطوں میں کھل کر بات کریں گے۔
آج کی تحریر میں ہم صیہونیت کی مشہور علامت سانپ اور مشہور اصطلاح 'ایجنٹر (پولیٹیکل)' کے بارے میں جانیں گے۔ اس کے بعد 'الیومیناٹی پروٹوکولز کی" پہلی دستاویز" پڑھیں ہیں۔
: ایجنٹر اور پولیٹیکل کیا ہے
دستاویزات بنیادی طور پر انگریزی میں ہیں، اسکے انگریزی ترجمے میں دو ایسے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں جن کی معنی غیر معروف ہیں۔ ایجنٹر اور پولیٹیکل کے الفاظ دراصل اسم ذات کے طور پر استعمال ہوئے ہیں۔ ایجنٹر غالباََ اصل مسودہ سے لیا گیا ہے اور اس سے مراد گماشتوں کی وہ پوری تنظیم ہے جو صیہونیت کے لیے کام کرتی ہے خواہ وہ اس گروہ کے رکن ہوں یا اس کے سربراہ ہوں۔ پولیٹیکل کی معنی ماسٹر مارسڈن (انگریزی مترجم) کے خیال میں سیاسی ادارہ نہیں بلکہ سیاست کی پوری مشینری ہے۔
: سانپ – صیہونیت کا مشہور نشان
الیومیناٹی پروٹوکولز کی 'تیسری دستاویز' صیہونیت کے علامتی نشان کے حوالے سے شروع ہوتی ہے۔ پروفیسر نائلس نے ان دستاویزات کی 1905 کی اشاعت کی آخری صفحات میں اس علامتی نشان 'سانپ' کو مندرجہ ذیل الفاظ میں بیان کیا ہے؛
" صیہونیت کے خفیہ تاریخی شواہد کے مطابق حضرت سلیمان (علیہ السلام) اور دوسرے یہودی بزرگوں نے 929 قبل میسح میں ہی تسخیر عالم کا ایک تصوارتی خاکہ مرتب کرلیا تھا۔جوں جوں تاریخ کے اوراق پلٹتے گئے، اس منصوبے کی جزئیات واضع ہوتی گئیں اور آئندہ آنے والی نسلوں میں ان لوگوں نے جنہیں، ان رازوں میں شریک کیا گیا تھا اس منصوبے کے خدوخال واضع کرکے اسے پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ ان داناؤں نے سانپ کی روایتی عیاری اور مکاری کے ساتھ پرامن ذرائع استعمال کرتے ہوئے ساری دنیا پر صیہونی تسلط کا منصوبہ بنایا۔ اس روایتی سانپ کا سر وہ افراد ہیں جو صیہونی تنظیم کے باقائدہ رکن ہیں اور اس کا جسم پوری یہودی قوم ہے۔ اس تنظیم کو ہمیشہ سے خفیہ رکھا گیا ہے۔ یہاں تک کہ عام یہودی کو بھی اس کی ہوا تک نہیں لگنے دی جاتی۔ جب یہ سانپ کسی قوم کے قلب میں داخل ہوتا ہے تو اس ملک کی تمام غیر یہودی قوتوں کو اپنی گرفت میں لے کر نگل جاتا ہے۔ پیش گوئی یہ ہے کہ سانپ اس منصوبے کی جزئیات کے عین مطابق اپنا کام اس وقت تک جاری رکھے گا جب تک اس کاسر اس کی دم سے نہ مل جائے"۔
اس طرح ممکنہ ذرائع استعمال کرتے ہوئے، سانپ پورے یورپ کے گرد اپنا حلقہ مکمل کرے گا اور اس طرح پورے یورپ کو پابہ زنجیر کرنے کے بعد یورپ کے توسط سے ساری دنیا پر اپنا تسلط قائم کرے گا۔ ساری دنیا پر معاشی تسلط قام کرنے کے منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا جائے گا۔
سانپ کے سر کی صیہونیوں کو واپسی صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ 'معاشی بحران' پیدا کیے جائیں، بڑے پیمانے پر تباہ کاری کی جائے اور اس کے لیے مذہب بیزاری اور اخلاقی بدکرداری کی فضا قائم کی جائے۔
اس کام کے لئے خصوصیت سے یہودی عورتیں استعمال کی جائیں گی جو فرانسیسی اور اطالوی لڑکیوں کے روپ میں یہ کام کریں گے۔ یہ لڑکیاں ان ممالک کے اعلیٰ طبقوں میں بےلگام شہوت پرستی کی ہمت افرائی کرکے قابل تقلید مثالیں قائم کریں گی۔
قارئین ! اب ہم صیہونی دانا بزرگوں کی 'پہلی دستاویز' کے اصل الفاظ کا مطالعہ کریں گے۔ اب یہاں سے پہلی دستاویز شروع ہوتی ہے، توجہ اور باریک بینی سے مطالعہ کریں، کوئی بھی سوال ذہن میں آئے تو لکھ لیجیے اور بعد میں کمنٹ کرکے پوچھ لیں۔
--------------------------------------------------------
پہلی دستاویز " بنیادی اصول طاقت ہی حق ہے"
عنوانات : سیاسیات بمقابلا اخلاقیات۔ نتائج ذرائع کو حق بجانت بناتے ہیں۔"آزادی، مساوات اور اخوت" نئی اشرافیہ
پرشکوہ محاوروں کے استعمال سے گریز کرتے ہوئے ہم صرف نظریات کی اصلیت کے بارے میں بات کریں گے اور تقابلی جائزہ لے کر اور استنباط کرکے حقائق کے گردوپیش پر روشنی ڈالیں گے۔ اب جو بات میں کہنے والا ہوں وہ یہ ہے کہ ہمارے نظام کو دو مختلف نقطہ ہائے نظر سے دیکھا جاسکتا ہے۔ ایک ہمارے اپنے نقطہ نظر سے اور دوسرے غیر یہود کے نقطہ نظر سے۔
یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرلیجئے کہ عوام کی اکثریت بری جبلت رکھنے والے افراد پر مشتمل ہے۔ اچھے لوگ بہت کم ہوتے ہیں اور اسی لئے ان پر کامیابی سے حکومت کرنے کے لئے علمی دلائل سے کام نہیں چلایا جاسکتا۔ حکومت کامیاب اسی وقت ہوسکتی ہے جب جبر و تشدد کے ذریعہ عوام کے دلوں پر دہشت بٹھادی جائے۔
ہر شخص طاقت کا بھوکا ہے اگر ممکن ہوسکے تو ہر شخص مطلق العنان آمر بننا چاہتا ہے۔ ایسے لوگ شاذ و نادر ہی ملیں گے جو اپنے مفاد کے حصول کی خاطر دوسروں کی فلاح و بہبود قربان کرنے میں زرا سی بھی جھجھک محسوس کریں۔
آج تک ان میں شکروں کو جنہیں ہم انسان کہتے ہیں کس چیز نے روکا ہوا ہے؟ اب تک کون ان کی راہنمائی کرتا رہا ہے؟
انسانی تہذیب کے ابتدائی ادوار میں ان کا سابقہ ایک ظالم اور اندھی طاقت سے رہا۔ بعد کے ادوار میں اسے قانونی حکمرانی کا نام دیدیا گیا۔ لیکن طاقت وہ کی وہ ہی رہی۔ صرف دوسرا پہنچادیا گیا۔ لہٰذہ میں اس سے یہ نتیجہ اخد کرتا ہوں کہ 'قانونِ قدرت' کی رو سے حق طاقت مین مضہمر ہے سیاسی آزادی محض ایک نظریہ ہے۔ اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اسے حسب ضرورت مروجہ حکومت کی قوت کو کچلنے کے لئے عوام کو اپنی پارٹی کے جال میں پھانسنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ کام اس وقت اور بھی آسان ہوجاتا ہے جب خود حکومت میں بھی آزادی کے نظریہ کے جراثیم موجود ہوں یعنی حکومت خود آزاد خیالی کی طرف مائل ہو اور اس آزاد خیالی کے نظریے کے تحت دوسروں کو بھی اقتدار میں شریک کرنے پر تیار ہو۔ یہی وہ مقام ہے جہاں ہمارا نظریہ کامیابی سے ہمکنار ہوتا ہے۔ حکومت کی آزاد خیالی کی وجہ سے عوام پر اس کی گرفت ڈیلی پڑجاتی ہے اور زندگی کے قانون کے مطابق یہ گرفت ڈھیلی پڑتے ہی حکومت کی باگ ڈور ایک نئے ہاتھ میں چلی جاتی ہے۔ عوام کی کورچشم طاقت ایک دن کے لئے بھی بغیر رہنما کے زندہ نہیں رہ سکتی اس لئے ایک نئی حکومت اس پرانی حکومت کی جگہ لے لیتی ہے جو اپنی آزاد خیالی کی وجہ سے پہلے ہی سے کمزور ہوچکی ہوتی ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ مذہب کی حکمرانی تھی لیکن موجودہ دور میں وہ طاقت جس نے آزاد خیال حکمران کی جگہ لی ہے وہ ہے 'سونے کی طاقت'۔
آزادی ایک ناممکن الحصول نظریہ ہے کوئی نہیں جانتا کہ اسے اعتدال کی حدود میں رکھ کر کس طرح استعمال کیا جائے۔ جوں ہی کسی قوم کو خودمختاری ملتی ہے وہ فوراََ افراتفری اور بدنظمی کا شکار ہوجاتی ہے اس کے بعد باہمی کشمکش شروع ہوجاتی ہے جو طبقاتی جنگ میں بدل جاتی ہے اور جب ایک مرتبہ یہ جنگ شروع ہوجائے تو ملک کی حیثیت اس آگ میں جل کر راکھ کے ڈھیر سے زیادہ نہیں رہ جاتی۔
کوئی ملک یا تو اپنے داخلی خلفشار اور سیاسی تشنج کی وجہ سے تھک کر خود ہی دم توڑ دیتا ہے یا پھر اندرونی رقابتوں کی وجہ سے اسکا کوئی دشمن ملک اس پر تسلط حاصل کرلیتا ہے۔ دونوں صورتوں میں اس میں دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کی صلاحیت باقی نہیں رہتی اور اس طرح مکمل طور پر یہ ہمارے زیر اثر آجاتا ہے۔ سرمایہ کی استبداری قوت جو مطلقاََ ہمارے ہاتھ میں ہے اس ڈوبتے ہوئے ملک کے لئے تنکے کا سہارا بن کر اس کی مدد کو موجود ہوتی ہے اور یہ مدد اس ملک کو بجرواکراہ اس لئے قبول کرنی پڑتی ہے کہ اگر ایسا نہ کرے تو بلکل ہی ڈوب جائے۔
اگر کوئی آزاد خیال شخص یہ کہے کہ مندرجہ بالا طریقہ کار غیر اخلاقی ہے تو میں اس سے یہ سوال کروں گا کہ اگر کسی ملک کے دو دشمن ہوں ایک خارجی اور دوسرا داخلی۔ تو اگر خارجی دشمن کے مقابلے میں کسی بھی قسم کا حربہ استمال کرنا غیر اخلاقی فعل نہیں ہے۔ (مثال کے طور پر دشمن پر حملے اور دفاع کے منصوبوں سے دشمن کو لاعلم رکھنا اس پر شپ خون مارنا یا اس پر اس کی تعداد سے زیادہ بڑی تعداد میں حملہ آور ہونا غیر اخلاقی فعل نہیں ہیں) تو پھر اس سے بھی بڑے دشمن کے لئے جو سارے معاشرے کو راہ وپود بکھیر رہا ہو یہ فعل کس طرح غیر اخلاقی اور ممنوع قرار دیا جاسکتا ہے۔
کیا کوئی صحیح الدماغی آدمی یہ تصور کرسکتا ہے کہ عوام الناس کو منطقی دلائل اور براہین سے قائل کرکے ان کی صحیح رہنمائی کی جاسکتی ہے۔ ان لوگوں میں جن کی ذہنی استعداد اور منطقی استدلال کی صلاحیت محض سطحی ہو، معمولی معمولی اعتراضات اور منفی دلائل خواہ وہ کتنے ہی ہیچ کیوں نہ ہوں زیادہ قبولیت حاصل کرلیتے ہیں۔ عوام صرف جذبات کی رو میں بہتے ہیں اور انہیں نظریات میں الجھا کر ان میں پھوٹ ڈالی جاسکتی ہے۔ اس کے بعد کتنے ہی معقول دلائل کیوں نہ پیش کئے جائیں ان میں اتحاد اور اتفاق کا امکان ختم ہوجاتا ہے۔
عوامی ہجوم کی قراردادوں کی قوت کا انحصار افراد کی کثرت پر ہوتا ہے اور یہ اکثریت سیاسی امور کی لاعلمی کی وجہ سے ایسے مضحکہ خیر فیصلے کراتی ہے کہ انتظامیہ طوائف الملوکی کا شکار ہوجاتی ہے۔
سیاسیات اور اخلاقات کے مابین کوئی قدر مشترک نہیں ہے۔ جو حکمران اخلاقی قدروں کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتا کبھی بھی پرکار سیاستدان نہیں بن سکتا اور اس وجہ سے اس کا راج سنگھاسن ہمیشہ ڈولتا رہتا ہے۔ جو حکومت کرنا چاہتا ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ عیار اور مکار ہو۔ اعلیٰ اخلاقی صفات مثلاََ بےباکی، جراءت اور ایمانداری میدانِ سیاست میں گناہ ہے۔ ایسی صافت حکمران کو اقتدار سے اس کے مقابلے مین جلدی سبکدوش کروادیتی ہیں جتنی دیر میں وہ کسی طاقتور دشمن کے مقابلے میں ہوتا یہ خوبیاں غیر یہودی حکمرانوں میں ہونا احسن ہیں لیکن ہمیں ان سے سبق لینا چاہیے۔
ہمارا حق طاقت میں پنہاں ہے۔ لفظ حق ایک موہوم نظریہ ہے اور اسے ثابت نہیں کیا جاسکتا۔ اس لفظ کی معنی اسا کے علاوہ کچھ نہیں کہ " جو حاصل کرنا چاہتا ہوں مجھے دیدو تاکہ میں ثابت کرسکوں کہ میں تم سے زیادہ طاقتور ہوں"۔
حق کہاں سے شروع ہوتا ہے کہاں ختم ہوتا ہے؟ جب کسی ملک کی مرکزی طاقت کمزور ہوجاتی ہے اور ملک کے قوانین اور اس کے حکمران آزاد خیالی کی افزودگی کے نتیجے میں حقوق کے سیلاب میں اپنا تشخص کھو بیٹھتے ہیں تو مجھے ایک نیا حق نظر آتا ہے اور وہ حق ہے طاقتور کے حملہ کرنے کا حق اور اس حق کو استعمال کرکے مروجہ نظام اور قوانین کی دھجکیاں اڑانا، تمام فرسودہ اداروں کی تشکیل نو کرنا اور ان لوگوں پر اقتدار اعلیٰ حاصل کرنا جنہوں نے اپنی آزاد خیالی کی وجہ سے اپنی طاقت کو اختیاری طور پر ہمارے قدموں میں لاڈالا ہے۔
ملک کی طاقت کے نظام کی اس ڈگمگاتی ہوئی حالت میں ہماری طاقت دوسروں کے مقابلے میں بالکل ناقابل تسخیر ہوگی اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری طاقت اس وقت تک پس پردہ رہتی ہے جب تک کہ یہ اتنی استداد حاصل نہ کرلے کہ کسی قسم کی عیاری اور سازش اس کا بال بیکا نہ کرسکے۔
ان وقتی شیطانی حرکتوں کے نتیجے میں ہم موجودہ حالات میں کرنے پر مجبور ہیں ایک مستحکم حکومت کی بھلائی پیدا ہوگی جو قومی زندگی کو ایک ایسا مستقل سیاسی نظام مہیا کرے گی جو گزشتہ دور کی آزاد خیالی کی وجہ سے دم توڑ چکا ہوگا۔ کوئی عمل خواہ کتنا ہی برا کیوں نہ ہواگر اس کا نتیجہ اچھا برآمد ہوتا ہے تو وہ عمل بھی درست قرار دیا جانا چاہیے۔ اس لیے ہمیں اپنے منصوبوں کی تکمیل میں صرف اس بات کا ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے کہ ضرورت کا تقاضہ کیا ہے؟ وہ عمل بذات خود اچھا ہے یا اخلاقی اعتبار سے بُراہے یا بھلا اس سے کوئی سروکار نہیں ہونا چاہیے۔ ہمارے پیش نظر ایک جنگی اہمیت کا منصوبہ ہے جس میں ذرا سی غلطی سے صدیوں کی محنت پر پانی پھر جانے کا اندیشہ ہے۔
منصوبے کے عملی پہلوؤں کی تفصیلی وضاحت کرتے ہوئے یہ خیال رکھنا ضروری ہے کہ عوام کی کمینہ خصلت ان کی سہل انگاری، تلون مزاجی اور ان کی اپنی زندگی کے حالات اور اپنے نیک و بد کو سمجھنے کی صلاحیت کے فقدارن سے پورا فائدہ اٹھانا ہے۔ ہمیں یہ بات خوب اچھی طرح ذہن نشین کرلینی ہے کہ عوام کی طاقت کورچشم بےشعور اور منطق سے عاری ہوتی ہے اور ہر وقت کسی اشارے کی منتظر۔ اسے جس سمت میں بھی چاہیں موڑا جاسکتا ہے۔
اگر کوئی نابینا کسی دوسرے نابینا کی قیادت میں چلتا ہے تو اس کے ساتھ خود بھی خندق میں گرجاتا ہے۔ اسی طرح عوام کی کورچشم اور ناعاقبت اندیش ہجوم میں سے جو افراد اوپر ابھر کر آتے ہیں خواہ وہ کتنے ہی ذہین کیوں نہ ہوں چونکہ ان میں سیاسی شعور اور ادراک نہیں ہوتا وہ اپنے پیچھے چلنے والی پوری قوم کو بھی لے ڈوبتے ہیں۔
صرف وہی فرد جسے بچپن سے ہی آزاد حکمران بننے کی تربیت دی گئی ہو اس الفاظ کی معنی سمجھ سکتا ہے جس سے سیاسی ایجد کی تدوین ہوتی ہی۔
اگر کسی قوم کی قیادت شروع ہی سے عوام میں سے ابھرنے والے ان کم ظرف اور چھچھورے افراد کے حوالے کردی جائے تو ان کی آپس کی مخاصمانہ کشکش، طاقت اور اقتدارکے لئے رشہ کشی اور اس کے نتیجے میں برآمد ہونے والی بدنظمی اس قوم کو جلد ہی تباہی کے کنارے پر پہنچادیتی ہے۔
کیا یہ ممکن ہے کہ عوام کا انبوہ کثراطمینان اور سکون کے ساتھ سوچ سمجھ کر اور بغیر چھوٹی چھوٹی رقابتیں درمیان میں لائے ہوئے درست فیصلے کرسکے؟ کیا وہ کسی بیرونی دشمن سے اپنا دفاع کرسکتا ہے؟ کیا اس کا اندارہ کرنا مشکل ہے کہ اس منصوبے کا کیا حشر ہوگا جسے مختلف دماغ اپنے اپنے طریقے سے چلانے کی کوشش کر رہے ہوں۔ ایسا منصوبہ یقیناََ ناقابل عمل ہوگا۔
یہ صرف ایک مطلق العنان حکمران کے لئے ممکن ہے کہ وہ منصوبوں کو جامع اور واضع انداز میں ان کی جزئیات کے ساتھ اس طرح روبعمل لائے کہ سیاسی نظام کے کل پزروں میں اختیارات کی صحیح تقسیم ہوسکے۔ اس سے یہ لابدی نتیجہ نکلتا ہے کہ کسی ملک کے لئے بہترین نظامِ حکومت صرف وہی ہوسکتا ہے جس میں طاقت کا ارتکاز ایک ذمہ دار فرد واحد کے ہاتھ میں ہو۔
مطلق العنان حکمرانی بغیر تہذیب وجود میں نہیں آسکتی۔ تہذیب عوام الناس نہیں بناتے۔ اس کی تشکیل ان کا رہنما کرتا ہے۔ خواہ وہ رہنما کوئی بھی ہو۔ عوام وحشی ہیں اور جہاں بھی موقع ملتا ہے وہ اپنی اس خصلت کا اظہار کرنے سے نہیں چوکتے۔ جوں ہی انہیں آزادی ملتی ہے، اس کے بعد فوراََ ہی طوائف الملوکی شروع ہوجاتی ہے جو بذات خود انتہائی درجے کی بربریت ہے۔ آپ نشے میں بدمست ان جانوروں کو دیکھتے ہیں ان کا دماغ نشے کی وجہ سے مختل ہوجاتا ہے۔ ان کی آزادی نے انہیں بسیار نوشی کی اجازت دی ہے۔ ہمارا طریقہ یہ نہیں اور ہمیں اس راہ پر نہیں چلنا چاہیے۔ غیر یہودی افراد شراب کے نشے میں اپنے حواس کھو بیٹھتے ہیں ان کے نوجوان قدامت پرست، فسق و فجو اور بدکرداری کی وجہ سے غبی اور کند ذہن ہوچکے ہیں ہم نے اپنے مخصوص گماشتوں کے زریعے انہیں اس راہ پر لگایا ہے یہ کام مدرسین کے ذریعہ، اپنے کاسہ لیسوں کے ذریعہ، امراء کے گھروں میں کام کرنے والی خادماؤں کے ذریعہ، مذھبی رہنماء کے ذریعہ، اور اپنی لڑکیوں کی عیاشی کی ان اداؤں میں داخل کرکے جہاں غیر یہودیوں کی عام طور پر آمد درفت ہے کروایا گیا ہے۔ مؤخرالذکر گروہ میں، وہ خواتین بھی شامل ہیں جنہیں 'سنبھا کی پریاں' (فلمی ہیروئن یا ماڈلنگ کرنے والی لڑکیاں) کہا جاتا ہے۔ یہ خواتین بدکاری اور عیاشی میں دوسروں کی رضاکارانہ تقلید کرتی ہیں۔
اس عمل پر مہر تصدیق ثبت کرنے کے لئے ہمارے پاس دو چیزیں ہیں۔ طاقت اور عوام فریبی۔ سیاسی امور میں فتح صرف طاقت کی ہوتی ہے۔ بالخصوص ایسی صورت میں یہ طاقت اس صلاحیت مین مضمر ہو جو کسی سیاست کار کے لئے ضروری ہوتی ہے جو حکومت اپنا تخت و تاج کسی دوسری طاقت کے کارندوں کے قدموں میں نہیں رکھنا چاہتی اسے تشدد کو اصول کے طور پر اپنانا چاہیے اور عیاری اور مکاری اور عوام بریبی اس حکومت کا قانون ہونی چاہیں۔ ہمارا نیک مقصد صرف اور صرف ان ہی طاغونی ذرائع کو استعمال کرکے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ لہٰذہ ہمیں اپنا نصب العین حاصل کرنے کے لئے حسب ضرورت رشوت، دھوکہ دہی اور دغابازی سے قطعی گریز نہیں کرنا چاہیے۔
سیاست کے میدان میں دوسروں کا اپنا محکوم بنانے اور اپنی مطلق العناتی قائم کرنے کے لئے دوسروں کی املاک پر بلاتردد قبضہ کرلینا بالکل جائز ہے۔
ہماری ریاست کو جو پرامن فتح کی راہ پرگامز ہے، یہ حق حاصل ہے کہ جنگ کی ہولناکیوں کے بجائے، سزائے موت کے دو طریقے استعمال کرے جن سے غیر ضروری تشہر کے بغیر زیاد خاطر خواہ نتائج براآمد ہوں۔ اس طریقہ پر عمل کرنے سے عوام پر ایسی دہشت طاری ہوگی کہ وہ بےچوں و چراں اطاعت کریں گے۔
انصاف کے مطابق فیصلے کرنا اور ان پر بےرحمانہ سختی سے عمل درآمد کرنا، ریاست کی طاقت کا جزءاعظم ہے۔ یہ طریقہ نہ صرف یہ کہ فائدہ مند ہے بلکہ فرض کا تقاضہ بھی یہی ہے۔ کامیابی حاصل کرنے کے لئے ہمیں تشدد اور فریبی کے لائحہ کار پر عمل کرنا ضروری ہے۔ بدلہ چکانے کا قانون بعینہ اتنا ہی درست ہے جتنے وہ ذرائع جو بدلہ چکانے کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں۔ لہٰذہ تشدد کے اصول کے مدنظر، ذرائع سے صرف نظر کرتے ہوئے ہم ضرور کامیاب ہوں گے اور تمام حکومتوں کو اپنی سپر گورنمنٹ (اقوام متحدہ) کے تابع کرلیں گے۔ انہیں صرف یہ اندازہ کروانے کی ضرورت ہے کہ حکم عدولی کی صورت میں ہم کتنے بےرحم اور سفاک ہوسکتے ہیں۔ اس کے بعد وہ ہماری حکم عدولی کی جراءت نہیں کرسکیں گے۔
عرصہ ہوا، پرانے زمانے میں ہم نے سب سے پہلے عوام الناس کے سامنے آزادی، مساوات اور اخوت کے نعرے پیش کئے تھے۔ بعد کے زمانوں میں اطراف و جوانب کے احمق طوطے، ان کی رٹ لگاتے ہوئے اس جال میں پھنستے چلے گئے اور اس کے ساتھ ہی دنیا میں خوشحالی بھی رخصت ہوگئی۔ یہ خوشحالی فرد کی اصل آزادی جو عوام کے دباؤ سے محفوظ تھی۔
غیر یہودی مفکرین ان 'مجرد الفاظ' کی معنی کی گہرائی تک نہیں پہنچ سکے۔ انہوں نے ان الفاظ کے معنی کے تضاد اور باہمی تعلق پر غور نہیں کیا۔ اور وہ نہیں سمجھ سکے کہ مساوات اور آزادی نظام فطرت کے خلاف ہیں۔ قدرت نے انسانوں کو یکساں ذہن نہیں دیا، یکساں خصوصیات نہیں دیں، یکساں صلاحتیں نہیں دیں، یہ اصول اتنا ہی ناقابل تبدیل ہے جتنا خود یہ اصول کہ قانون قدرت سے انحراف ناممکن ہے۔ انہوں نے کبھی اس بات پر غور نہیں کیا کہ عوام کورچشم ہوتے ہیں اور اس لئے جو لوگ ان عوام میں سے منتخب ہوکر حکومت کرنے کے لئے آئیں گے وہ بھی رموز حکومت سے اتنے ہی نابلد ہوں گے جتنے کہ خود عوام جنہوں نے انہیں منتخب کیا ہوگا۔ وہ یہ نہیں سمجھ سکے کہ رموز مملکت کا ایک ماہر خواہ وہ کتنا ہی بیوقوف کیوں نہ ہو پھر بھی حکومت کرسکتا ہے۔ اس کے برخلاف کوئی شخص خواہ کتنا ہی ذہین کیوں نہ ہو اس میں امور مملکت سمجھنے کے صلاحیت پیدا نہیں کی جاسکتی۔ ان تمام امور پر غیر یہودی کی توجہ گئی ہی نہیں۔
اس کے باوجود اس تمام عرصے میں خاندانی حکومتیں ان ہی اصولوں پر چلتی رہیں۔ باپ نے بیٹے کو رموزِ حکومت اور حکمرانی کے سربستہ رازوں کا علم اس طرح منتقل کیاکہ سوائے افراد خاندان کے ان رموز سے کوئی دوسرا واقف نہ ہوسکا اور نہ کسی نے اپنے محکموں کو اس کے بارے میں کچھ بتایا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ رموز مملکت کے علم کااس طرح منتقل ہونے کا سلسلہ کمزور پڑتا گیا اور رفتہ رفتہ ختم ہوگیا۔ اس کے ختم ہونے سے ہمارے مقاصد کے حصول میں بڑی تقریت ملی۔
ہمارے بھولے اور ناسمجھ گماشتوں کی وجہ سے جو ہم نے غیر یہودی معاشرے میں پیدا کردئے تھے، آزادی، مساوات اور اخوت کے الفاظ کے جھنڈے تلے آنے لگے اور رفتہ رفتہ یہ الفاظ غیر یہودیوں کو خوشحالی کی گھن کی طرح چاٹ گئے۔ امن و استحکام رخصت ہوا اور غیر یہودی سلطنتوں کی بنیادی ہل گئیں۔ جیسا کہ بعد کی صدی سے معلوم ہوگا کہ اس عمل نے ہمیں کامیابی سے ہمکنار کرنے میں کافی مدد کی اور منجملہ دوسرے فائدوں کے ہمیں ایک شاہ کلید حاصل ہوگئی۔ یعنی مراعات یافتہ طبقے کا خاتمہ۔ دوسرے الفاظ میں غیر یہود کی اشرافیہ جو ہمارے مقابلے میں عوام اور حکومتوں کا واحد دفاع تھی اس کا وجود مٹ گیا۔ اس قدرتی نسی اشرافیہ کے گھنڈروں پر ہم نے اپنی تعلیم یافتہ اشرافیہ قائم کی جس کی سرخیل دولتمندوں کی اشرافیہ ہے۔
اس اشرافیہ کی جو شرط ہم نے رکھی ہے وہ ہے دولت۔ جس کے حصول کے لئے وہ ہمارے محتاج ہیں۔ اس اشرافیہ میں شمولیت کی دوسری شرط اسرار و رموز علم ہے جس کی وقت محرکہ صرف ہمارے دانا بزرک ہی مہیا کرسکتے ہیں۔
اتنی آسانی سے ہمارے کامیاب ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ہم جن افراد کو اپنی مطلب برادی کے لئے استعمال کرنا چاہتے ہیں تو ان کے تعلقات استوار کرنے میں ان کے ذہن کے حساس ترین تاروں کو چھیڑتے ہیں۔ مالدار ہونے کی خواہس، عاشق مزاجی، لامتناہی خوہشات، ان میں سے ہر ایک انسانی کمزوری انفرادی طور پر ان کی اختراعی قوتیں مفلوج کردینے کے لئے کافی ہیں۔ انسان اپنی قوت ارادی اس کے حوالے کردیتا ہے جو اسے یہ چیزیں مہیا کرتا ہے۔
لفظ آزادی کے تجرد نے ہمیں ساری دنیا کے عوام کو یہ باور کرانے کے قابل بنادیا ہے کہ اصل میں ملک کے حقیقی مالک و خود ہیں اور ان کی حکومت کی حیثیت ملک کے عوام کے داروغہ سے زیادہ کچھ بھی نہیں ہے اورا س داروغہ کو اپنے پرانے دستانے کی طرح جب چاہے اتار کر پھینکا جاسکتا ہے۔
اپنے نمائندوں کی تبدیلی کے امکان ہی نے انہیں ہمارا دوست نگر بنادیا ہے اورا س طرح ہمیں ان کا تقرر کرنے کی صلاحیت مہیا کردی ہے۔
(پہلی دستاویز یہاں ختم ہوئی)
----------------------------------------------------------
یہاں پر صیہونی دانا بزرگوں کی خفیہ دستاویزات کی پہلا باپ ختم ہوا جس کا عنوان تھا "بنیادی اصول طاقت ہی حق ہے"۔
تیسری قسط میں ہم الیومیناٹی پروٹوکولز کی دوسری دستاویز "معاشی جنگیں" کا مطالعہ کریں گے۔ اگر آپ نے پہلی قسط نہیں پڑھی تھی تو وہ نیچے موجود لنک پر کلک کرکے پڑھ لیں۔
آج کی دستاویز پر اگر آپ کے ذہن میں کوئی سوالات ابھرے ہوں تو کمنٹ میں پوچھ سکتے ہیں۔ اور اگر کوئی نئی بات آپ کا معلوم ہوئی یا صیہونیت کے متعلق کچھ مزید جانتے ہوں تو اپنے تاثرات سے ضرور آگاہ کیجیے۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں