"صیہونی دانا بزرگوں کی خفیہ دستاویزات "دی الیومیناٹی پروٹوکولز"
(چھٹی دستاویز )
"دستاویز کا نام "جانشینی کا طریقہ
: دستاویز کے مضامین
غیر یہودی اشرافیہ کا خاتمہ کرنا۔ قیمتوں میں اضافے کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع کرنا۔ زمینداروں سے زمینوں چھننا، نوکری پیشہ افراد کو غلام بنانا۔
قارئین آج ہم صیہونی دانا بزرگ کی زبانی "جانشینی کا طریقہ" جاننے کی کوشش کریں گے،آج کی چھٹی دستاویز میں بتایا گیا ہے کہ دجال کے پجاری "اقوام متحدہ کی سپر گورنمنٹ یعنی عالمی حکومت قائم کرنے کے بعد "ون ورلڈ آرڈر" نافظ کریں گے اور اس کے بعد پوری دنیا پر معاشی کنٹرول حاصل کریں گے، پھر اشیاء کی قیمتوں میں نہ رکنے والا ایک ایسا سلسلہ شروع کریں گے کہ جو یہودیوں کو چھوڑ کر باقی تمام اقوام کو پسیج دے گا اور پھر صیہونی غیر یہودی اقوام پر ظلم کا وہ سلسلہ شروع کریں گے کہ جو بلکل خدائی کے دعوے کرنے والے نمرود اور فرعون کے دور جیسا ہوگا۔ یہ بھی یاد رہے کہ آج کی دستاویز میں صیہونی دانا بزرگ کا خطاب خصوصی طور پر فری میسن کے عالمی معاشی ماہرین سے ہے، ان کے سامنے اپنی معاشی پالیسی کے خدوخال بیان کر رہا ہے۔
اب نیچے سے چھٹی دستاویز بنام "جانیشی کا طریقہ شروع ہوتی ہے، غور سے مطالعہ کیجیے
( "چھٹی دستاویز "جانشینی کا طریقہ )
-------------------------
عنقریب ہم بڑی بڑی اجارہ داریاں قائم کرنی شروع کریں گے جو دولت کی کانیں ہوں گی اور ان پر غیر یہودی سرمایہ کا اتنا انحصار ہوگا کہ سیاسی تباہی کے اگلے دن ملکوں کے قرضوں کے ساتھ ساتھ ان کا سرمایہ بھی ڈوب جائے گا۔
آپ حضرات جو یہاں موجود ہیں معاشیات کے ماہرین ہیں، ذرا ان اجتماعی وقوعات کی اہمیت کا اندازہ لگائیے۔
ہمیں ہر ممکنہ طریقہ استعمال کرکےاپنی سپر گورنمنٹ(اقوام متحدہ) کی اہمیت کی نشونما کرنی ہے اور اسے ان کے لئے جو خوشی سے رضاکارانہ طور پر ہماری اطاعت قبول کریں ، ایک سرپرست، مربی اور محسن حکومت کے روپ میں پیش کرنا چاہیے۔
(قارئین اوپر بیان کی گئی سپر گورنمنٹ سے مراد "اقوام متحدہ کی عالمی حکومت ہے" یعنی اقوام متحدہ کو عالمی حکومت میں تبدیل کردیا جائے گاجسے صیہونی "سپر گورنمنٹ" کا نام دیتے ہیں۔ اقوام متحدہ میں جو ملک بھی رضاکارانہ اطاعت کے تحت اس کا ممبر بنتا ہے تو وہ دراصل صیہونیوں کی عالمی حکومت کے شکنجے میں آجاتا ہے۔وہ اقوام متحدہ کی تمام قراردادوں پر عمل کرنے کا پابند بن جاتا ہے اور تاریخ گواہ ہے کہ صیہونیوں نے آج تک مسلمانوں کے لیے کوئی عملی کام نہیں کیا۔ چاہے کشمیر ہو یا فلسطین یا برما، صیہونی اقوام متحدہ نے صرف زبانی جمع خرچ ہی کیا جبکہ اسرائیل کے فلسطین اور انڈیا کے کشمیر پر قبضے پر آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ اب ہم مزید آگے پڑھتے ہیں کہ صیہونی دانا بزرگ کیا کہتا ہے)
غیر یہودی اشرافیہ کا بحیثیت ایک سیاسی قوت کے، جنازہ نکل چکا ہے۔ اب ہمیں اس کی چنداں پرواہ نہیں کرنی چاہیے لیکن زمیندار چونکہ خود کفیل ہیں اس لئے وہ ہمیں اب بھی نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ لہٰذہ ہمیں خواہ اس کی کوئی بھی قیمت ادا کرنی پڑے، یہ انتہائی ضروری ہے کہ انہیں ان زمینوں سے محروم کردیا جائے۔ یہ مقصد اراضی کی ملکیت پر قرضوں کا بوجھ ڈال کر بہ آسانی حاصل کیا جاسکتا ہے۔ قرضے اراضی کی ملکیت پر بند باندھیں گے اور ان کے ہاتھ میں کاسہ گدائی دیکر ہماری غیر مشروط اطاعت کی حالت میں رکھیں گے۔
(قارئین اورپر شیطان کا پجاری صیہونی دانا بزرگ اعتراف کرتا ہے کہ غیر یہودیوں کی سیاسی قوت اب دنیا سے ختم ہوچکی ہے یعنی اب ہر جگہ صیہونی ایجنڈہ ہی چل رہا ہے، صیہونیوں کے مقابلے میں کوئی قوم کھڑی ہونے کی پوزیشن میں نہیں رہی ہے لیکن ساتھ ہی یہ بھی اعتراف کرتا ہے کہ "زمیندار لوگ" ہمارے لیے خطرہ بن سکتے ہیں کیونکہ وہ زمینوں کے مالک ہیں اور جب چاہیں اپنی مرضی سے اناج اگاسکتے ہیں اس لیے کہتا ہے کہ ان زمینداروں کی زمینوں پر قبضہ کرنا ہوگا۔ ان سے زمینیں چھیننی ہوں گی۔ اسی قبضے کے مقصد کے پلان کے تحت صیہونیوں نے دنیا میں "زرعی ترقیاتی بینک" جیسے زرعی قرضے دینے والے ادارے قائم کیے اور ان بینکوں یا اداروں کے زریعے زمینداروں کو بھاری قرض دیکر ان کی "زمینوں کی ملکیت" اپنے قبضے میں لی جائے )
اب ہم مزید آگے پڑھتے ہیں ۔۔۔۔
غیر یہودی اشراف کی یہ خاندانی روایت ہے کہ وہ تھوڑی سی قناعت نہیں کرتے اس لئے وہ جلد ہی اپنی جائیدادوں کو فضول خرچی میں اڑادیں گے۔
اس کے ساتھ ساتھ ہمیں تجارت اور صنعت کی خصوصیت کے ساتھ حوصلہ افزائی کرنی چاہیے لیکن پہلے اور سب سے پہلے قیاس اندازی (اتار چڑھاؤ یعنی اسٹاک ایکسچینج) کی سرپرستی ضروری ہے جو صنعتی شعبے کے لیے پاسنگ کا کام کرتی ہے۔ اگر قیاس اندازی کا شعبہ نہیں ہوگا تو افراد کے پاس سرمایہ بڑھتا چلا جائے گا جس سے وہ اراضی کو قرضوں کے بوجھ سے نجات دلاکر دوبارہ زرعی شعبے کو بحال کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ ہمارا مقصد یہ ہے کہ محنت اور سرمایہ دونوں اراضی سے کھنچ کر صنعت میں آجائیں اور اس کے نتیجے میں قیاس اندازی کے ذریعے دنیا کی ساری دولت سمٹ کر ہمارے قدموں تلے آجائے اور یوں سارے غیر یہودیوں کو ادنیٰ طنقے میں دھکیلا جاسکے۔ اس کے بعد غیر یہود، اگر کسی وجہ سے نہیں تو صرف اپنے زندہ رہنے کا حق لینے کے واسطے ہمارے سامنے سربسجود ہوں گے۔
(قارئین اوپر کے الفاظ میں صیہونی دانا بزرگ کے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہر شعبے چاہے زرعی شعبہ ہی کیوں نہ ہو، میں ہونے والی محنت و مزدوری اور سرمایہ ان شعبہ جات سے نکالنا ہے اور نکال کر اسٹاک ایکسچنج جیسےادارے یا بینکوں میں منتقل کرنا ہے۔ قیاس اندازی کے شعبے سے مراد اسٹاک ایکسچینج ہے جس کا ذکر میں پچھلی اقساط میں بھی تفصیل سے کرچکا ہوں۔ جب سرمایہ اسٹاک ایکسچنج میں آنا شروع ہوگا تو باقی لوگ بھی اپنا سرمایہ اپنے پاس نہیں رکھیں گے، سونا ہو یا چاندی یا نقد پیسے، اسٹاک ایکسچنج کی سٹہ بازی میں لگاکر دراصل صیہونیوں کے ہاتھ میں دے دیں گے۔ اور اگر اسٹاک ایکسچینج میں نہیں رکھیں گے تو پھر بینکوں میں رکھیں گے اور بینکوں کے مالکان یہی صیہونی ہیں۔ مطلب سرمایہ انسانوں کے ہاتھ سے نکل کر صیہونیوں کے ہاتھ منتقل کروانا ہے)۔
اب ہم مزید آگے پڑھتے ہیں۔۔۔۔
غیر یہود کی صنعتیں مکمل طور پر تباہ کرنے کے لئے ہم قیاس اندازی کی مدد سے انہیں عیش و عشرت میں مبتلا کردیں گے جس کا ہم نے انہیں پہلے ہی عادی بنادیا ہے۔ وہ عیش و عشرت جس کی حریصانہ احتجاج ہر چیز کو ہڑپ کئے جارہی ہے۔
ہم مزدوروں کی اجرت بڑھائیں گے لیکن یہ اضافہ انہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچاسکے گا۔ چونکہ ساتھ ہی ہم بنیادی ضرورت کی اشیاء کی قیمتوں میں اس بہانے اضافہ کردیں گے کہ زرعی پیداوار اور مویشیوں کی افزائش میں کمی واقع ہوگئی ہے مزدوروں کو لاقانونیت کا عادی بناکر اور انہیں شراب خوری کا خوگر بناکر ہم چاکبدستی سے ذرائع پیداوار کی جڑیں کھوکھلی کردیں گے۔ اس کے ساتھ ہی ہم وہ اقدامات کریں گے کہ جن سے غیر یہود کے تعلیم یافتہ طبقے کا مکمل استیصال ہو جائے۔ مبادا غیر یہود کو مناسب وقت آنے سے پہلے ہی ہماری سازش کا علم ہوجائے، ہم اس وقت تک اپنے چہروں پر محبت کشوں کی خدمت کے مبینہ پرِخلوص جذبے اور سیاسی معاشیات کے عظیم اصولوں کا نقاب اوڑھے رہیں گے جن کا ہمارے معاشی نظریات شد و مد سے پرچار کر رہے ہیں۔
یہاں چھٹی دستاویز ختم ہوئی )۔ )
-----------------------------------------------
قارئین اوپر صیہونی دانا بزرگ نے ایک گہری سازش کا اعتراف کیا ہے جو وہ سپر گورنمنٹ کی تخلیق کے بعد شروع کریں گے، جس کے تحت وہ مختلف بہانے بناکر اشیاء کی قیمتیں بہت زیادہ بڑھادیں گے تاکہ دولت کے انار جمع کیے جائیں، ساتھ ہی مزدور پیشہ طبقہ یعنی نوکری پیشہ افراد اور زمینداروں وغیرہ کو شراب و کباب کا عادی بنادیں گے تاکہ پیداوار کے شعبے کی جڑیں کھوکھلی کی جاسکیں۔
پھر کہتا ہے کہ ہم غیر یہود (غیر یہود سے مراد و مسلمان، عیسائی ، ہندو وغیرہ ہیں)کے تعلیم یافتہ پڑھے لکھے طبقے کا بھرپور استیصال کروائیں گے یعنی جو تعلیم یافتہ ذہین لوگ ہمارے خلاف بولیں گے ، ہمارے ایجنڈے کو بےنقاب کریں گے، ہمارے لیے مسئلہ پیدا کریں گےیا مزدور پیشہ طبقے اور پیداواری شعبے کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کی کوشش کریں گے تو ہم ان کا ایسا استیصال کروائیں گے کہ کوئی ان کی باتوں پر یقین ہی نہیں کر ے گا ۔ اور اگر کوئی ہماری سازشوں کو بےنقاب کرنا شروع کردے گا تو اس سے پہلے کہ ہماری سازشوں کا پردہ چاک ہوجائے ہم پہلے ہی چہروں پر محبت اور خلوص لیے مختلف روپ میں (مثال کے طور پر این جی اوز یا کسی سرکاری ادارے کی روپ میں) آکر ان کے سامنے مصنوعی محبت لیے ان کے معاشی صلاحکار بن کر انہیں بہکادیں گے۔ان کے ہمدرد بن کر انہیں دھوکا دیں گے۔ دھوکا دیکر ٹھیک اسی طرف موڑ دیں گے جس طرف پہلے ہی ہمارے 'صیہونی معاشی ماہرین' لگے ہوئے ہوں گے۔
قارئین آج کی دستاویز میں صیہونی دانا بزرگ کا خطاب صیہونیوں کے عالمی معاشی ماہرین سے تھا، ممکن ہے آپ کو کچھ باتیں سمجھ نہ آئی ہوں کیونکہ یہ معاشیات کے شعبے کا کھیل ہے جو ہر کسی کو سمجھ نہیں آتا، لوگوں کو تو اسٹاک ایکسچنج کی اصلیت کا بھی نہیں معلوم۔ قیاس اندازی کے شعبے یعنی اسٹاک ایکسچنج کو مزید جاننے کے لیے میری پچھلی اقساط کا لازمی مطالعہ کیجیے۔
ان شاء اللہ اگلی یعنی "آٹھویں قسط" میں الیومیناٹی پروٹوکول کی ساتویں دستاویز بنام "عالمگیر جنگیں"چند دنوں میں پوسٹ کروں۔ اس میں عالمی جنگوں کی تفصیلات ہیں۔ ان عالمی جنگوں میں سے دو جنگیں ( پہلی عالمی جنگ اور دوسری عالمی جنگ) پہلے ہی وقوع پزیر بھی ہوچکی ہیں اور ان جنگوں کے پیچھے یہی صیہونی تھے، جبکہ "تیسری عالمی جنگ" شروع کرنے کے لیے بھی صیہونی مسلسل کام کر رہے ہیں اور یہ تیسری عالمی جنگ تاریخ کی سب سے زیادہ خطرناک "ایٹمی جنگ" ہوگی جس سے آدھی دنیا کی آبادی ہلاک ہوجائے گی۔ ان شاء اللہ اگلی قسط جلد پوسٹ کروں گا۔
تحریر: یاسررسول
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں