اسرائیل کی ایرانی ایٹمی تنصیبات پر حملہ کی تیاریاں شروع


 

کیا اسرائیل واقعی ایران کی ایٹمی تنصیبات پر حملہ کرنے والا ہے؟


مشرق وسطیٰ ایک بار پھر کشیدگی کے دہانے پر کھڑا ہے۔ اسرائیل اور ایران کے درمیان بڑھتی ہوئی دشمنی، خاص طور پر ایران کی ایٹمی سرگرمیوں کے باعث ایک ایسے ممکنہ تصادم کی طرف اشارہ کر رہی ہے جو پورے خطے کو جنگ کی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔ 


حالیہ دنوں میں اسرائیلی حکام کی جانب سے واضح اشارے ملے ہیں کہ وہ ایران کی ایٹمی تنصیبات پر کسی بھی وقت حملہ کر سکتے ہیں۔



اسرائیل کی تشویش

اسرائیل طویل عرصے سے یہ دعویٰ کرتا رہا ہے کہ ایران ایٹمی ہتھیار بنانے کی کوشش کر رہا ہے، جو اسرائیل کے وجود کے لیے خطرہ ہے۔ 


ایران اس دعوے کی تردید کرتا ہے اور کہتا ہے کہ اس کا ایٹمی پروگرام پُرامن مقاصد کے لیے ہے۔ مگر اسرائیل کا ماننا ہے کہ اگر ایران ایٹمی طاقت بن گیا تو خطے میں طاقت کا توازن بگڑ جائے گا۔



خفیہ آپریشنز اور حالیہ اشارے

اسرائیل ماضی میں بھی ایران کے ایٹمی سائنسدانوں کو نشانہ بنا چکا ہے اور ایران کے اندر خفیہ کارروائیوں میں ملوث رہا ہے۔ اب اسرائیلی فوج اور خفیہ ایجنسیاں ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے یہ عندیہ دے رہی ہیں کہ اگر سفارتی راستے ناکام ہو گئے تو براہ راست فوجی حملہ بھی کیا جا سکتا ہے۔


اسرائیل کی فوج نے حالیہ ہفتوں میں ایران سے ممکنہ جنگ کے لیے خصوصی مشقیں بھی کی ہیں جس سے ان قیاس آرائیوں کو تقویت ملی ہے کہ حملہ قریب ہو سکتا ہے۔



عالمی ردعمل اور خطرات

اگر اسرائیل ایران پر حملہ کرتا ہے تو اس کے عالمی اثرات ہوں گے۔ نہ صرف ایران جوابی کارروائی کرے گا بلکہ لبنان میں حزب اللہ اور شام میں ایرانی حمایت یافتہ گروہ بھی متحرک ہو سکتے ہیں۔ 


خلیجی ممالک، بالخصوص سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات اس کشیدگی سے براہ راست متاثر ہوں گے۔


اس کے علاوہ، تیل کی قیمتوں میں اچانک اضافہ، عالمی مارکیٹ میں بے یقینی، اور امریکہ و روس جیسے طاقتور ممالک کی مداخلت کا خطرہ بھی موجود ہے۔



سفارتی راستہ ابھی بند نہیں

اگرچہ جنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں، مگر سفارتی دروازے مکمل طور پر بند نہیں ہوئے۔ عالمی طاقتیں، خاص طور پر امریکہ اور یورپی یونین اب بھی ایران کو مذاکرات کی میز پر لانے کی کوشش کر رہی ہیں تاکہ کسی بڑے تصادم سے بچا جا سکے۔



اس وقت مشرق وسطیٰ ایک نازک موڑ پر کھڑا ہے۔ اگر اسرائیل نے واقعی ایران کی ایٹمی تنصیبات پر حملہ کیا تو اس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔ 


بہتر یہی ہے کہ دونوں ممالک عالمی دباؤ کو تسلیم کرتے ہوئے بات چیت کے ذریعے مسئلہ حل کریں۔ بصورت دیگر، دنیا ایک نئے اور تباہ کن جنگی مرحلے میں داخل ہو سکتی ہے۔




تبصرے