دروز کمیونٹی کون ہے؟ اسرائیل انہیں بچانے کیلئے شامی فوج پر حملے کیوں کر رہا ہے؟

 

شام کا جنوبی صوبہ السویدا، جو دروز اقلیت کا مرکز سمجھا جاتا ہے، حالیہ ہفتوں میں شدید کشیدگی کا شکار ہے۔ یہاں شامی حکومت اور مقامی دروز جنگجوؤں کے درمیان جھڑپوں نے سیاسی و عسکری صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ انہی حالات کے درمیان اسرائیل نے شام میں دروز کمیونٹی کی حمایت میں مخصوص علاقوں پر فضائی حملے کیے ہیں، جن کا مقصد بظاہر شامی حکومت کے اثر و رسوخ کو کم کرنا ہے۔


اس آرٹیکل میں ہم تفصیل سے جائزہ لیں گے کہ السویدا میں کیا ہو رہا ہے، دروز برادری کا موقف کیا ہے، اسرائیل کے اہداف کیا ہیں، اور اس تمام صورتحال کا خطے پر کیا اثر پڑ سکتا ہے۔


السویدا: دروز اقلیت کا مرکز

السویدا شام کا ایک نسبتاً پُرامن صوبہ مانا جاتا تھا، جہاں دروز اقلیت بڑی تعداد میں آباد ہے۔ دروز فرقہ ایک مذہبی و ثقافتی اقلیت ہے جس کے ماننے والے شام، لبنان، اسرائیل اور اردن میں پائے جاتے ہیں۔ شام میں دروز برادری طویل عرصے تک حکومت سے فاصلے پر رہتے ہوئے ایک غیر جانبدارانہ کردار ادا کرتی آئی ہے۔


تاہم، حالیہ مہینوں میں حکومت مخالف جذبات بڑھنے لگے ہیں۔ معاشی بدحالی، بے روزگاری، کرپشن اور حکومتی ظلم نے مقامی آبادی کو سڑکوں پر آنے پر مجبور کر دیا۔ عوامی مظاہرے جلد ہی جھڑپوں میں تبدیل ہو گئے، اور مقامی جنگجو گروہ اب باقاعدہ شامی فورسز کے خلاف مزاحمت کر رہے ہیں۔


دروز جنگجو اور شامی فورسز کے درمیان جھڑپیں


مقامی ذرائع کے مطابق، السویدا میں دروز ملیشیا نے متعدد بار حکومتی سیکیورٹی چیک پوائنٹس پر حملے کیے، جس کے نتیجے میں کئی فوجی ہلاک اور گاڑیاں تباہ ہوئیں۔ حکومت نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے شہر کے مختلف علاقوں میں سیکیورٹی فورسز تعینات کیں اور طاقت کا بھرپور استعمال شروع کر دیا۔


ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ دروز برادری کے بعض افراد شامی حکومت کی جانب سے جبری بھرتی، سیاسی بے دخلی اور مذہبی آزادی پر قدغن کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اب خاموشی سے رہنا ان کے وجود کے لیے خطرہ بن سکتا ہے، اس لیے مزاحمت ہی واحد راستہ ہے۔


اسرائیلی فضائی حملے: دروز کمیونٹی کی حمایت یا سیاسی چال؟


جب شام کے حالات خاصے کشیدہ ہو گئے، تو اسرائیل نے بھی کارروائی شروع کر دی۔ اسرائیلی طیاروں نے السویدا کے قریب شامی فوجی ٹھکانوں کو نشانہ بنایا، جس کا مقصد بظاہر شامی حکومت کے عسکری ڈھانچے کو نقصان پہنچانا تھا۔


تاہم، تجزیہ کاروں کے مطابق، اسرائیل کا اصل مقصد دو طرفہ ہو سکتا ہے


1. دروز کمیونٹی کی حمایت: اسرائیل خود اپنی سرزمین پر ایک بڑی دروز آبادی کا میزبان ہے، جو اس کی فوج اور سیاست میں بھی فعال کردار ادا کر رہی ہے۔ دروز برادری کے ساتھ ہمدردی کے اظہار کے لیے اسرائیل ممکنہ طور پر ان کی حمایت میں کارروائیاں کر رہا ہے۔



2. ایرانی اثر کو کم کرنا: اسرائیل طویل عرصے سے شام میں ایرانی اثر و رسوخ کے خلاف ہے۔ شامی حکومت کی پشت پناہی ایران اور حزب اللہ کرتے ہیں، اس لیے السویدا جیسے علاقوں میں حکومت کو کمزور کرنے سے اسرائیل کو اسٹریٹجک فائدہ ہو سکتا ہے۔


دروز برادری کی تاریخ اور اسرائیل سے تعلقات


دروز ایک منفرد مذہبی برادری ہے جو اسلام سے الگ مگر اس سے جڑی ہوئی تعلیمات رکھتی ہے۔ ان کے عقائد خفیہ ہوتے ہیں اور صرف منتخب افراد کو مکمل رسائی دی جاتی ہے۔ لبنان، شام اور اسرائیل میں ان کے اہم مراکز موجود ہیں۔


اسرائیل میں دروز برادری کو شہری حقوق حاصل ہیں اور وہ فوجی خدمات میں نمایاں کردار ادا کرتے ہیں۔ اسی لیے اسرائیل میں موجود دروز افراد کے دلوں میں شام میں رہنے والے اپنے ہم مذہب افراد کے لیے ہمدردی موجود ہے، جو اسرائیل کی پالیسی کو بھی متاثر کرتی ہے۔


انسانی بحران: شہریوں کی مشکلات


السویدا میں جاری لڑائی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے عام شہری ہیں۔ اطلاعات کے مطابق، بجلی، پانی اور خوراک کی شدید قلت ہے۔ طبی سہولیات ناکافی ہیں اور زخمیوں کا علاج مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ اقوام متحدہ نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگر لڑائی نہ رکی تو علاقہ ایک بڑے انسانی المیے کا شکار ہو سکتا ہے۔


عالمی ردعمل اور اقوام متحدہ کا کردار


عالمی برادری کی جانب سے ابھی تک کوئی مؤثر ردعمل سامنے نہیں آیا۔ امریکہ اور یورپی ممالک نے صرف تشویش کا اظہار کیا ہے، جبکہ اقوام متحدہ نے دونوں فریقین سے اپیل کی ہے کہ وہ جنگ بند کر کے مذاکرات کا راستہ اپنائیں۔


مگر حقیقت یہ ہے کہ اقوام متحدہ کی کوششیں شام میں پہلے بھی ناکام رہی ہیں، کیونکہ بڑی طاقتیں اپنے مفادات کو ترجیح دیتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ السویدا کی صورتحال عالمی میڈیا میں محدود توجہ حاصل کر پائی ہے۔


آگے کا راستہ: کیا السویدا دوسرا درعا بن جائے گا؟


درعا، جو 2011 میں شامی انقلاب کا مرکز تھا، وہ بھی ابتدا میں عوامی احتجاج سے شروع ہوا اور پھر خانہ جنگی میں بدل گیا۔ اگر السویدا میں بھی حالات کو سنبھالا نہ گیا، تو یہ نیا درعا بن سکتا ہے۔ دروز برادری کا ہتھیار اٹھانا شام کے لیے ایک نئی مصیبت بن سکتا ہے کیونکہ اب تک وہ غیر جانبدار تھی، لیکن اب وہ براہ راست محاذ پر آ چکی ہے۔


السویدا میں جاری کشیدگی، دروز کمیونٹی کی بیداری، شامی حکومت کی طاقت کا استعمال، اور اسرائیلی فضائی حملے، سب مل کر شام کی موجودہ صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا رہے ہیں۔ اسرائیل کی مداخلت جہاں دروز حمایت کے تناظر میں دیکھی جا رہی ہے، وہیں اس کے پس پردہ سیاسی اور اسٹریٹجک مفادات بھی پوشیدہ ہیں۔


یہ ضروری ہے کہ اقوام متحدہ اور علاقائی طاقتیں فوری طور پر مداخلت کریں اور ایک پرامن حل تلاش کریں تاکہ شام ایک اور خونی باب سے بچ سکے، اور دروز کمیونٹی کو ان کے حقوق اور تحفظ کی ضمانت دی جا سکے۔



تبصرے