The illuminate Protocols - Part 3

صیہونی دانا بزرگوں کی خفیہ دستاویزات 
(دوسری دستاویز  - "معاشی جنگیں")
دستاویز کےمضامین:
دستوری حکومتیں۔ معاشی بحران پیدا کرنا۔ جھوٹی ڈارون تھیوری کو کامیاب کروانا۔ پریس سے متاثر ذہنیت

تیسری قسط میں ہم صیہونی دانا برزگوں کی دوسری دستاویز پڑھیں گے، اگر آپ نے پہلی اور دوسری اقساط نہیں پڑھیں تو پہلے انکا مطالعہ کرلیں تاکہ آج کی تیسری قسط سمجھ آسکے۔۔۔۔ 

آج کی قسط غور اور باریک بینی سے مطالعہ کیجیے۔ اس میں سائنس کی پیش کردہ "ڈارون تھیوری" کی اصلیت بتائی گئی ہے۔ ڈارون تھیوری یعنی انسان حیوان بندر سے بنا ہے کے نظریے کو جان بوجھ کر صیہونیت نے دنیا میں مشہور کروایا تاکہ لوگوں کو یہ ماننے پر مجبور کییا جائے کہ کوئی خدا نہیں ہے۔ اس کے علاوہ میڈیا کی اہمیت بھی بیان کی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ میڈیا کو دنیا کی کسی دوسری قوم نے اتنا اہم ہتھیار نہیں بنایا اور سمجھا جتنا کہ ہم صیہونیوں نے، اور صیہونیت اس دستاویز میں اقرار کرتی ہے کہ میڈیا نے انہیں بہت زیادہ پیسہ اور طاقت دی ہے اور اب وہ پردے کے پیچھے رہ کر میڈیا کے زریعے دنیا کے لوگوں کے دماغ بدل سکتے ہیں۔ غور سے پڑھیے گا۔

(اب نیچے صیہونیوں کے لیڈر کے الفاظ شروع ہوتے ہیں)
-----------------------------------------------------------------

" ہمارے مقاصد کے حصول کے لئے یہ اشد ضروری ہے کہ جنگوں کے نتیجے میں علاقے فتح نہ ہونے دیئے جائیں اور اس طرح جنگ کا رخ معاشی میدان کی طرف موڑ دیا جائے۔ متحارب ملکوں کو جو امداد فراہم کی جائے گی وہ ان ملکوں سے ہماری طاقت کا اعتراف کرائے بغیر نہیں رہے گی اور یہ صورت حال دونوں متحارب ملکوں کو ہمارے بین الاقوامی گماشتوں (اقوام متحدہ، آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور سیاستداسی حکمران وغیرہ) کے رحم و کرم پر لا ڈال گی۔ ان بین الاقوامی گماشتوں کے پاس لاکھوں دیکھنے والی آنکھیں اور بے شمار وسائل ہیں۔ اور اسی طرح ہم ان قوموں پر بالکل اسی طرح حکومت کریں گے جیسے کسی ملک کا دیوانی قانون اس ملک میں ہونے والے مقدمات کا فیصلہ کرتا ہے۔

(قارئین اوپر بیان کیے گئے الفاظ میں صیہونیوں کا آقا اپنے چیلوں کو شیطانی گر سکھا رہا ہے کہ کوشش کی جائے جنگوں کے نتیجے میں علاقے فتح نہ ہوں کیونکہ اس طرح علاقے صیہونیوں کے کنٹرول میں نہیں آئیں گے، اس کے برعکس ان علاقوں یا ممالک کو معاشی بحران سے بچانے کے لیے انہیں بھاری قرض دیے جائیں تاکہ وہ ہمیشہ کے لیے صیہونیوں کے پیسے کے محتاج ہوجائیں۔ آج آپ آئی ایم ایف، ورلڈ بینک جیسے عالمی ادارے دیکھ لیں یہ علاقے ممالک کو فتح کرنے کے بجائے قرض دیگر اپنا غلام بناتے ہیں)

اب آگے پڑھتے ہے؛

"ان کے جھگڑے چکانے کے لئے جو ناظم مقرر کئے جائیں گے وہ عوام میں سے لئے جائیں گے مگر ان کے تقرر میں اس بات کا خیال خاص طور پر رکھا جائے گا کہ وہ ہماری حکم عدولی نہ کرسکیں۔ چونکہ یہ لوگ رموز مملکت سے ناواقف ہوں گے اس لئے ان کی حیثیت رموز مملکت سے آشنا لوگوں کے ہاتھوں میں محض مہروں کی سی ہوگی۔ ان کے مشیر وہ ماہرین ہوں گے جنہیں بچپن سے ہی دنیا پر حکومت کرنے کی تربیت دی گئی ہوگی۔"

قارئین ! ان سطروں میں صیہونیوں کا لیڈر جن ناظمین کا ذکر کر رہا ہے اس سے مراد مقامی حکومت سمجھیں یا عالمی عدالت یعنی ہر جگہ ایسے لوگ ایسے مشیر وزیر لگوائے جائیں گے جو انکے حکم پر چل کر حکمرانوں کو وہی مشورہ دیں گے جو وہ چاہیں گے۔

اب مزید آگے پڑھتے ہیں ۔ ۔ ۔

" جیسا کہ آپ کو علم ہے، ہمارے یہ ماہرین وہ جملہ معلومات اکٹھی کرتے رہتے ہیں جن کی ہمارے منصوبوں کے لئے ضرورت ہوسکتی ہے۔ یہ تاریخ سے سبق لیتے ہیں اور ہر ہر لمحہ گزرنے والے عالمی واقعات کا جائزہ لتے رہتے ہیں۔ غیر یہودی تاریخ کا معروضی اور بے لاگ انداز میں عملی تجزیہ کرکے اس سے نتائج اخذ نہیں کرسکتے۔ یہ لوگ ہونے والے واقعات کے منطقی نتائج کو تنقیدی نگاہ سے دیکھنے کے بجائے صرف نظریاتی لکیریں پیٹتے ہیں۔

ہمیں بحرحال انہیں کوئی اہمیت دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ انہیں اپنے حال میں مگن رہنے دیں تاوقتیکہ وہ فیصلہ کن لمحہ آن پہنچے۔ انہیں اپنی نت نئی تفریحات اور منفعت بخش امیدوں کے سہارے یا گزرے ہوئے لمحات کی خوشگوار یادوں کے سہار ے جینے کے لئے چھوڑدیں۔

ان سطور میں جس فیصلہ کن لمحہ کا ذکر ہے اس سے مراد یا تو اسرائیل کا وجود قائم کرنا یعنی یہودیوں کو ایک ملک میں جمع کرنا ہے یا پھر دجال کا خروج ہے۔ اس کے علاوہ وہ کہتا ہے کہ ہمارے ماہرین مطلب معیشت دان، سیاستدان، سائنسدان وغیرہ جو یہودی ہیں وہ پوری دنیا کے حالات پر صرف نظر ہی نہیں رکھتے بلکہ ان کا جامع اور منطقی حل بھی پیش کرتے ہیں جبکہ دیگر غیر یہودی یعنی مسلمان، عیسائی یا ہندو وغیرہ دنیا پر نظر تو رکھتے ہیں لیکن صرف اپنے اپنے نظریات تک ہی رولا ڈالتے ہیں کہ ہمارے ساتھ ٹھیک نہیں ہورہا ، یہ کیوں ہورہا ہے ویسا کیوں نہیں ہورہا، وہ صرف تنقیدی رولا ڈال سکتے ہیں مگر یہ صیہونیوں کی اصل گیم پلان کو نہیں سمجھ پاتے کیونکہ صیہونیوں کے ہی ماہرین نے انہیں اس طرح لاجواب کر رکھا ہوتا ہے کہ ان کے پاس سوچنے کے لیے کوئی رخ بچتا ہی نہیں۔

اب آگے پڑھتے ہیں ، اب یہاں صیہونیوں کا لیڈر اعتراف کرے گا کہ اس نے یہ سب باتیں محض خیالی نہیں کی بلکہ اس کا عملی نمونہ ڈارون تھیوری بھی ہے جس کو جان بوجھ کر مشہور کروایا گیا غور سے پرھیے گا۔

" ہم نے انہیں ترغیبات دے دے کر یہ باور کرادیا ہے کہ علمی دور کے تقاضوں کے مطابق زندگی میں یہی چیزیں اہم ترین ہیں۔ اسی مقصد کے پیش نظر ہم اخباروں اور رسالوں کے ذریعے متواتر ان نظریات کا پرچار کرکے ان پر اندھا اعتقاد پیدا کر رہے ہیں۔ غیر یہودی دانشوران نظریات سے لیس ہوکر بغیر منطقی تصدیق کے ان نظریات کو روبعمل لانے کی کوشش کریں گے اور ہمارے ماہر گماشتے اپنی کمال عیاری سے ان کی فکر کا رخ اس طرف موڑ دیں گے جو ہم نے ان کے لئے پہلے سے مقرر کی ہوئی ہے۔ آپ کو ایک لمحہ کے لئے بھی یہ سبہ نہیں ہونا چاہیے کہ یہ خالی خولی الفاظ ہیں۔

غور کیجیے کہ ڈارون کے نظریے کو کس نے کامیابی سے ہمنکار کرایا ۔۔۔؟ مارکیسٹ اور نطشے کے فلسفے کو کس نے لوہا منوایا۔۔؟ ہم یہودیوں پر بہر طور یہ بات بالکل واضع ہے کہ ان نظریات سے غیر یہودی دماغ کس قدر منتشر اور پراگندہ کئے گئے۔۔۔!

( قارئین ! آپ نے نوٹ کیا؟ دستاویز میں واضع اعتراف کیا جارہا ہے کہ "ڈارون کے نظریے " کو انہوں نےہی کامیاب کروایا جس کا مقصد غیر یہودی بالخصوص مسلمان عیسائیوں کے دماغ کو پراگندہ کرنا رھا۔ یعنی انہوں نے جان بوجھ کر ڈارون تھیوری نہ صرف پیش کروائی بلکہ اسے پوری دنیا میں پھیلاکر کامیاب بھی کروایا اور وہ واقعی کامیاب بھی ہوئی اور آج مسلمان ملکوں میں مسلمانوں کے بچے بھی ڈارون تھیوری پڑھنے پر نہ صرف مجبور ہیں بلکہ انہیں ڈارون تھیوری پر یقین کرنے کے علاوہ کوئی اور راستہ ہی نظر نہیں آتا۔ یاد رہے ڈارون تھیوری کو ارتقائی تھیوری بھی کہا جاتا ہے جس کا مقصد ہے کہ انسان بندر سے ارتقائی مرحلوں سے گزر کر بنا ہے یعنی انسان بندر کی اولاد ہے۔ اس نظریے کو ماننے کا مطلب ہے کہ انسان کو اللہ نے پیدا نہیں کیا نہ ہی جنت و دوزخ کا کوئی وجود ہے۔

اب مزید آگے پڑھتے ہیں اور جانتے ہیں صیہونی کیا کہتا ہے؛

"ہمارے لئے دوسری قوموں کے خیالات کا تجزیہ کرنا اور ان کے خصائل اور کردار کا مطالعہ کرنا اس لئے ضروری ہے تاکہ سیاسی اور انتظامی امور میں کوتاہی کا معمولی سا بھی احتمال بھی باقی نہ رہے۔ ہمارے نظام کی کامیابی اور ان عوامل کی کامیابی جو اس نظام کو چلاتے ہیں ( جن لوگوں سے ہمارا واسطہ پڑنے والا ہے ان کی افتاد طبع اور مزاج کے مطابق طریقہ کار میں ردو و بدل کیا جاسکتا ہے)۔ اس وقت تک یقینی نہیں بنائی جاسکتی جب تک ماضی سے لے کر حال کی روشنی میں اس کے استعمال کا عملی خاکہ تیار نہ کرلیا جائے۔"

 اب یہاں سے صیہونیوں کا گرانڈ ماسٹر میڈیا کی اہمیت بیان کرتا ہے، غور سے پڑھیے۔ یاد رہے اس وقت پوری دنیا کا 99 فیصد میڈیا صیہونی یہودیوں کی ملکیت ہے، پرنٹ میڈیا ہو یا الیکٹرانک میڈیا یا سوشل میڈیا یعنی فیس بک، ٹویٹر، گوگل، یوٹیوب، انسٹاگرام، واٹس ایپ وغیرہ وغیرہیہ سب بھی انہی صیہونیوں کی ملکیت ہیں۔۔۔اب آگے پڑھتے ہیں۔۔۔۔

"موجودہ حکومتوں کے پاس ایک اتنی بڑی طاقت ہے جو عوام کے خیالات کو کسی بھی رخ پر موڑنے کی حلاحیت رکھتی ہے اور یہ طاقت ہے "پریس کی طاقت"۔۔۔۔!

پریس کا کام یہ ہے کہ وہ ناگزیر ضروریات کی نشاندہی کرتا ہے، لوگوں کی شکایات منظرعام پر لاتا ہے، بے اطمینانی کا اظہار کرتا ہے اور عدم اطمینان پیدا کرتا ہے۔ یہ پریس ہی ہے جس میں اظہار رائے کی آزادی کو اپنا نتاسخ نظر آتا ہے۔ لیکن غیر یہودی حکومتیں اس طاقت کا صحیح استعمال نہیں جانتیں تھیں اور اس لئے یہ طاقت ہمارے ہاتھ لگ گئی۔

پریس کے ذریعہ، خود کو پس پردہ رکھتے ہوئے ہم نے عوام پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت حاصل کرلی ہے۔ بھلا ہو پریس کا کہ آج ہمارے پاس دولت ہے۔ اس سے قطع نظر کہ یہ دولت ہم نے خون اور آنسوؤں کے کتنے سمندروں سے گزر کر حاصل کی ہے۔ اس نے ہمیں نے انداز فائدہ پہنچایا ہے۔

اس کے لئے ہمیں بےشمار افراد کی قربانی دینی پڑی ہے لیکن ہمارے ایک ایک فرد کی قربانی خدا (دجال) کی نظر میں غیر یہود کے ایک ایک ہزار افراد کی قربانی کے برابر ہے۔"

(ختم شدہ)
---------------------------------------------------
 تیسری دستاویز کی آخری سطور میں صیہونیوں کا گرانڈ ماسٹر میڈیا کی اہمیت بتارہا تھا، یاد رہے یہ دستاویزات اٹھارویں صدی کی ہیں اور آج اکیسویں صدی چل رہی ہے، دو صدیوں تک صیہونیوں نے مسلسل میڈیا پر اتنا کام کیا کہ آج 99 فیصد پرنٹ میڈیا، الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا کے مالک یہی الیومیناٹی فری میسن بن چکے ہیں۔

فیس بک کا مالک بھی صیہونی، ٹویٹر کا مالک بھی صیہونی، گوگل ہو یا یوٹیوب یا واٹس ایپ ہو یا انسٹاگرام، سب کے مالک یھی فری میسن الیومیناٹی یعنی صیہونی ہیں۔

موبائل فون سے لیکر کمپیوٹر تک تمام چیزیں صیہونیوں کی قائم کردی کمپنیاں بناتی ہیں جنہیں مسلمان بھی مجبورا استعمال کرتے ہیں۔ صیہونی یہ چیزیں بیچتے بھی ہیں اور ساتھ میں ان ڈوائسز کے ذریعے مسلمانوں کی جاسوسی بھی کرتے ہیں۔ آج شاید ہی کوئی موبائل فون ہو جس کا تمام ڈیٹا صیہونیوں کے پاس نہ ہو۔ افسوس مسلمانوں نے ان اہم چیزوں پر توجہ نہیں دی۔ ہم نے آلو بینگن پر اللہ لا نام ڈھونڈنے کو کفی سمجھا اور وہ موبائل ٹ وی سیٹلائٹ ایجاد کرتے رہے۔

 "دستاویز نمبر 3" کی اہم بات یہ تھی کہ اس میں صیہونیوں کے دانا بزرگ نے "ڈارون تھیوری " کا اعتراف کیا ہے جو کہ آپ کے لیے چونکہ دینے والا حیرت انگیز اعتراف ہونا چاہیے۔

ہم سب نے اپنے سکول، کالج یا یونیورسٹی میں نظریہ ارتقا "ڈارون تھیوری" کو ضرور پڑھا ہوگا اور اس پر یقین بھی کرلیا ہوگا لیکن اس کے پیچھے صیہونیوں کے کیا مقاصد تھے یہ تو ہمارے استاد اور پروفیسرز حضرات بھی سمجھنے سے قاصر تھے اور ہیں۔ صیہونی اسی لیے کہتے ہیں کہ غیر یہودی ان کی اہم باتوں پر سوچتے ہی نہیں بلکہ وہ صرف نظریات کی لکیریں پیٹتے ہیں۔

یاد رہے صیہونی 'قوم بنی اسرائیل' کی باقیات ہیں ۔ بنی اسرائیل ایک وقت میں اللہ کی پسندیدہ ترین قوم ہوتی تھی اور اس قوم میں انتہائی ذہین لوگ ہوتے ہیں لیکن ان کی مسلسل سرکشی، انبیاء کرام (علیہم السلام) کو ناحق قتل کرنا اور انبیاء کی موجودگی میں ان کا انکار کرکے بچھڑے کی پوجا کرنے جیسے بڑے بڑ
ے گناہوں کی وجہ سے اللہ نے اس قوم کو ہمیشہ کے لیے دھتکار دیا لیکن ان کی عقل پھر بھی قائم رہی۔ شیطان بھی ان کے ساتھ ہوگیا تو انہوں نے پوری دنیا پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے ہر زمانے میں نت نئے منصوبے بنائے۔

الیومیناٹی پروٹوکولز کی ان دستاویزات میں وہی شیطانی منصوبے لکھے ہوئے ہیں جن کو باریک بینی سے تحریر کرکے صیہونیت کے دانا بزرگوں یعنی گرانڈ ماسٹرز نے اپنے انتہائی خفیہ ماسٹرز کو بھیجے۔ پوری دنیا میں ان کے 300 خفیہ ماسٹرز ہوتے ہیں جو دنیا پر اجارہ داری کو قائم رکھتے ہیں۔

لیکن اللہ کا احسان کے یہ دستاویزات لیک ہوگئی اور دنیا کو پتا چلا کہ صیہونی کتنے گھٹیا منصوبے بناتے ہیں کہ خود شیطان بھی ان سے پناہ مانگے۔

آج دنیا پر ایک خفیہ برادری کا کنٹرول جو کسی کو نظر نہیں آتی اور یہ برادی یہی الیومیناٹی فری میسن یعنی صیہونی ہیں۔

یہ پس پردہ رہ کر دنیا کی حکومتیں گراتے ہیں، جس ملک کی چاہیں معیشت تباہ کرتے ہیں، جب چاہیں ڈالر کو اوپر کردیتے ہیں یا نیچے لے آتے ہیں، پیٹرول کی قیمتیں جب چاہیں بڑھادیتے ہیں یا گھٹادیتے ہیں۔ دنیا جہاں کی ٹیکنالوجی اور وسائل پر کا قبضہ ہے۔

آپ کو یہ جان کر بھی حیرت ہوگی کہ ڈارک نیٹ کے خالق بھی یہی صیہونی ہیں۔ وہی ڈارک نیٹ جس پر قصور کی ننہی پری زینب کی جنسی تشدد والی وڈیوز بناکے بیچی گئی۔ یہ کام صیہونی کرتے ہیں کیونکہ وہ درندہ صفت انسان ہیں۔ انہیں بچوں کو تشدد کرکے مرتا دیکھنا پسند ہے یہ انکا ٹائم پاس شغل ہے جسے اپ ان کی گیم سمجھ لیں کیونکہ ایسے عمل کرنے سے شیطان ان سے خوش ہوتا ہے اور شیطان خوش ہوتا ہے تو انہیں جادو سکھاتا ہے اور دنیا کو جہنم بنانے کے مزید گر بتاتا ہے۔

اگلی دستاویزات میں مزید خطرناک انکشافات ہیں۔ آہستہ آہستہ آپ ان صیہونیوں کو اچھی طرح جان جائیں گے۔ درخواست ہے تحریر کو کم سے کم دو تین مرتبہ لازمی پڑھا کریں۔ اگر کوئی بات سمجھ نہ آئے تو کمنٹ میں پوچھ لیا کریں۔ 

تحریر : یاسررسول
 

تبصرے