صیہونی دانا بزرگوں کی خفیہ دستاویزات دی الیومیناٹی پروٹوکولز
(پانچویں دستاویز )
"دستاویز کا نام "مطلق العنانیت اور جدید ترقی
: دستاویز کے مضامین
صیہونی حکومت کی مرکزیت۔ ملکوں کے درمیان خلیجیں پیدا کرنا۔ رائے عامہ ہموار کرنے کے لیے سیاسی جھوٹی تقاریر کا استعمال کرنا۔ سپر گورنمنٹ (یعنی اقوام متحدہ) کے انتظامی ڈھانچہ کا تعارف۔
دستاویز نمبر 5 پڑھنے سے پہلے کچھ ضروری باتیں نوٹ فرمالیں۔۔
سب سے پہلے یہ ذہن میں رکھیے کہ مطلق العنانیت اس چیز یا حکومت کو کہتے ہیں جو بےلگام ہو، بےرحم ہو، خودمختار ہو، کسی کی نہ سنے، بس اپنی مرضی کرے۔ دوسری بات صیہونیوں کا گرانڈ ماسٹر اس دستاویز میں "سپر گورنمنٹ" کا ذکر کرتا ہے بلکہ یہ پوری دستاویز ہی اس سپر گورنمنٹ کے خدوخال کی وضاحت پر مشتمل ہے۔ جس سپر گورنمنٹ کا ذکر صیہونی دانا بزرگ کرے گا اس سے مراد اقوام متحدہ کی عالمی حکومت ہے یعنی شیطان پرستوں کا ایجنڈہ ہے کہ اقوام متحدہ کو ایک عالمی حکومت میں تبدیل کردیا جائے گا، پھر اس کے تمام ادارے خودبخود وزارتوں میں تبدیل ہوجائیں گے اور اس سپر گورنمنٹ کو پوری دنیا پر رائج کیا جائے، اس سپر گورنمٹ کو صیہونی النسل ایک ایسا شخص چلائے گا جو انتہائی بےرحم، سفاک، ظالم اور شیطان کا پجاری ہو، وہ یہودیوں کو چھوڑ کر باقی پوری دنیا پر اتنا ظلم کرے گا کہ پوری دنیا پتھر کے زمانے کے دور کی طرح ہوجائے گی، جیسے فرعون اور نمرود تھے جنہیں لوگ مجبورا خدا مان کر ان کی اطاعت کرتے تھے۔ ٹھیک اسی طرح صیہونی اقوام متحدہ کو سپر گورنمنٹ میں تبدیل کرکے ایک نیا فرعونی دور شروع کرنا چاہتے ہیں۔ عین ممکن ہے کہ جب دجال ظاہر ہوگا تو وہ اسی سپر گورنمنٹ کا بادشاہ بن کر پوری دنیا پر قبضہ کرے گا اور خود کو خدا بناکر پیش کرے گا پھر پوری دنیا کا چکر لگائے گا تاکہ لوگ اسے خدا تسلیم کرکے اسکے ہاتھ پر بیعت کریں۔
اب ہم صیہونی دانا برزگ کی لکھی دستاویز پڑھتے ہیں۔ یہاں سے دستاویز نمبر 5 شروع ہوتی ہے، غور سے پڑھیے
"پانچویں دستاویز - "مطلق العنانیت اور جدید ترقی
-----------------------
ایسے معاشرے میں جس میں بدعنوانی کی جڑیں بہت گہری ہوچکی ہوں، کس قسم کا نظام حکومت ہونا چاہیے۔ ایسا معاشرہ جہاں دولت، عیاری، پرفریب چالوں اور دھوکہ دہی کے ذریعہ کمائی جاتی ہو، جہاں بےراہ روی کی حکمرانی ہو، جہاں اخلاقی اصولوں کے بجائے سخت تعزیری قوانین کا سہارا لینا پڑے، جہاں مذھبی عقائد اور حب الوطنی، وسیع المشربی کے بوجھ تلے دب کر دم توڑ چکے ہوں تو ایسے لوگوں کیلئے جابر مطلق العنانی (بےلگام، بےرحم بادشاہت) کے علاوہ، جس کی تفصیل میں بعد میں بتاؤں گا اور کون سا طرزِ حکومت کارگر ہوسکتا ہے۔
(قارئین ! اوپر بیان کیے گئے الفاظ میں صیہونی دانا بزرگ معاشرے کی خامیوں پر توجہ دلاکے کہتا ہے کہ جب معاشرے میں کوئی اخلاقی اقدار ہی نہ بچیں تو ان کے لیے ایک بےرحم ظالم بادشاہت ہی بہتر ہے تاکہ عوام کو کنٹرول میں رکھا جائے۔ اگر دیکھا جائے تو قرآن کریم صیہونیوں کے بےرحم بادشاہی کی تجویز کے بجائے اپنے الگ اصول بیان کرتا ہے جس کے مطابق ہر جرم کی سزا کا اطلاق کرنا ضروری ہے۔ اگر مسلمان ان سزاؤں کا اطلاق کردیں تو معاشرے کی یہ خامیاں خود بخود ختم ہوجائیں گے۔
مثال کے طور پر اگر کوئی شادی شدہ شخص زنا کرتا ہے یا کوئی بچوں سے جنسی زیادتی کرتا ہے تو اسے جیل میں پھانسی دینے
کے بجائے قرآن کہتا ہے کہ اسے سرعام سنگسار کرو، یعنی بیچ سڑک پر سب کے سامنے سرعام پتھروں کی بارش کردو یہاں تک کہ مر جائے۔ اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ اس کی عبرتناک سزا کو دیکھ کر باقی لوگ خود ہی اس جرم سے باز آجائیں گے۔
اس کے علاوہ قرآن پاک میں اللہ عزوجل فرماتا ہے کہ "چور کے ہاتھ کاٹو"، لیکن ہم نے یہودیوں کی جمہوریت اپناکر چور کی سزا چند دن جیل مقرر کردی ہے جب ہی تو چوری اس معاشرے سے ختم ہی نہیں ہوسکتی۔ اگر ہم چور کو سرعام سب کے سامنے لاکر اس کے ہاتھ کاٹ دیں تو کیا معاشرے میں کوئی دوسرا آدمی چوری کرنے کا سوچے گا۔ ہم مسلمانوں کے پاس قرآن پاک جیسا عظیم ترین آئین موجود ہے لیکن ہم نے "صیہونیوں کی قائم کردہ جمہوریت " کو اپناکر اپنے آپ پر خود ظلم کیا ہے۔
اب ہم دستاویزکو مزید آگے پڑھتے ہیں۔۔۔
اس معاشرے کی تمام منتشر قوتوں کو قابو میں رکھنے کے لیے ہم ایسی حکومت قائم کریں گے جس کی تمام تر قوت کا ارتکاز مرکز میں ہوگا۔ مرکز اپنے نئے وضع کردہ قوانین کی مدد سے عوام کی سیاسی زندگی کو مشینی انداز میں چلائے گا، نئے قوانین، غیر یہودی حکمرانوں کی دی ہوئی تمام مراعات اور آزادیوں کو ایک ایک کرکے سلب کر لیں گے۔ اس حکومت کا طرہ امتیاز وہ شاندار اور زبردست مطلق العنانی (بےلگام آزادی اور خودمختاری کےحامل صیہونی بادشاہ/حکمران کے پاس) ہوگی جو ہماری مخالفت کرنے والے غیر یہودیوں کو، خواہ ان کی مخالفت قول سے ہو یا عمل سے، کسی بھی وقت اور کسی بھی جگہ، حرف غلط کی طرح مٹاسکے گا۔
قارئین ! ان الفاظ میں صیہونیوں کا گرانڈ ماسٹر جس سپر گورنمنٹ کی بات کر رہا ہے وہ اقوام متحدہ کی عالمی سپر گورنمنٹ ہوگی اور یہ مرگز مکمل طور پر صیہونیوں کے قبضے میں ہوگی، یعنی وہ امریکہ یا اسرائیل میں بیٹھ کر پوری دنیا پر حکمرانی کریں گے۔ مزید صیہونی دانا بزرگ اقرار کرتا ہے کہ جو بھی غیر یہودی (یعنی عیسائی، مسلمان یا چینی وغیرہ) ہماری سپر گورنمنٹ کی مخالفت کریں گے، چاہے زبان سے یا عمل سے کریں تو ہم آہستہ آہستہ ان تمام غیر یہود یوں کو حاصل تمام مراعات اور آزادیاں سلب کرلیں گے اور انہیں اور ان کے ممالک یا اداروں کو حرف غلط کی طرح بےرحمی سے ختم کردیں گے۔
اب ہم دستاویز کو مزید آگے پڑھتے ہیں ۔ ۔ ۔
کہا جاسکتا ہے کہ اس قسم کی مطلق العنانی، جس کا میں ذکر کر رہا ہوں، موجودہ ترقی یافتہ دور سے ہم آہنگ نہیں ہے، لیکن میں ثابت کروں گا کہ یہ عین ممکن ہے۔
ایسے زمانے میں جب لوگ بادشاہ کو خدا کا مظہر سمجھتے تھے اور اسے 'ظل سبحانی' کہتے تھے، وہ چوں چرا کئے بغیر اس کی اطاعت کرتے تھے لیکن اس دن سے جب سے ہم نے ان کے ذہنوں میں ان کے "حقوق کا تصور" ڈالا ہے اس دن سے انہوں نے بادشاہوں کو بھی عام فانی انسانوں جیسا سمجھنا شروع کردیا ہے۔ عوام کی نظر میں، بادشاہ کے سروں پر سے خدا کا سایہ اٹھ چکا ہے اور جب ہم ان کے دلوں سے 'خدا پر ایمان' بھی چھین لیں گے تو بادشاہت کی قوت سڑک پر بکھر کر عوامی ملکیت بن جائے گی اور اس طرح ہمارے قابو میں آجائے گی۔
اس کے علاوہ ذہانت سے تراشے ہوئے الفاظ پر مشتمل بھانت بھانت کے نظریات، طرزِ زندگی کے قوائد اور اس قبیل کی دوسری چالیں ایجاد کرکے، جن سے غیر یہودی قطعی نابلد ہیں، عوام اور افراد کی رہنمائی کرنے کا فن صرف ہمارے انتظامی ماہرین کا ہی حصہ ہے۔
قارئین ! یہاں صیہونی دانا بزرگ کہہ رہا تھا کہ پہلے لوگ بادشاہوں کو خدا کا مظہر مان کر بنا کسی چوں چراں کیے اس کی اطاعت کرتے تھے لیکن پھر ہم نے یعنی صیہونیوں نے لوگوں کو "حقوق کے دلفریز جعلی نعرے" کے نام پر ورغلایا۔ اگر آپ دیکھیں تو سلطنت عثمانیہ بھی حقوق دو کے آل سعود کے نعرے کی وجہ سے ٹوٹی اور آل سعود کو بعد میں بادشاہت بھی انہیں صیہونیوں نے دی۔
صیہونی جب چاہیں حقوق کے نعرے پر کسی بھی ملک کے حکمران کے خلاف عوام کو سڑکوں پر لاسکتے ہیں کیونکہ یہ حقوق دو کا نعرہ ہی ایسا ہے کہ ہر آدمی سڑکوں پر آجاتا ہے جبکہ یہ لوگ جانتے ہی نہیں کہ صیہونی انہیں اصل میں حقوق دینا ہی نہیں چاہتے بلکہ انہیں ٹشو پیپر کی طرح استعمال کرکے کوئی کام نکالنا چاہتے ہیں۔
مزید صیہونی دانا بزرگ کہتا ہے کہ ہم انتہائی ذہانت اور باریک بینی سے ایسے بھانت بھانت کے نظریات ایجاد کریں گے اور ایسی ایسی چالیں چلیں گے کہ غیر یہود کو ہماری غلامی کے سوا کوئی اور راستہ ہی نظر نہیں آئے گا۔ صیہونی دانا بزرگ اقرار کرتا ہے کہ غیر یہودی لوگ ایسے گھٹیا چالیں چلنے سے بلکل نابلد ہیں۔
اب ہم مزید آگے پڑھتے ہیں۔ ۔ ۔
تجربہ، معاہدہ اور جزئیات بینی کے میدان میں ہمارا کوئی حریف نہیں ہے۔ خصوصیت سے سیاسی طرف واردات کے منصوبے ہم سے بہتر اور کوئی نہیں بناسکتا۔ اس میدان میں یسوعی (عیسائی) ہماری ہم پلہ ہو سکتے تھے لیکن ہم اپنی تدبیر سے، عام ناسمجھ عوام میں ان کی ساکھ بلکل ختم کرچکے ہیں اور یہ بات ثابت کرچکے ہیں کہ وہ اعلانیہ ریاکار ہیں۔ دوسری طرف خود ہم نے اپنی تنظیم (فری میسن) کو بلکل پس پردہ رکھا ہوا ہے ۔
قارئین اس بات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ ریسرچ یعنی تجربہ بینی کے میدان میں یہودی سب سے آگے ہیں۔ اسی بات کا اقرار صیہونی اوپری الفاظ میں کرتا ہے کہ اس فیلڈ میں ہمارا مقابلا کوئی نہیں کرسکتا مگر ساتھ ہی کہتا ہے کہ یسوعی یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پیروکار ہمارے ساتھ مقابلا کرسکتے تھے لیکن ہم نے گھٹیا چالوں سے انہیں عوام کی نظروں میں اتنا بدنام کردیا کہ اب عوام ان کا نام بھی سننا پسند نہیں کرتی۔
دراصل صیہونی دانا بزرگ کا اشارہ 1541 میں قائم کردہ نئے عیسائی کوڈ کی طرف ہے جسے "سوسائٹی آف جیسس" کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس سوسائٹی کے بانی اگنیشس آف لویولا تھے جس کا تعلق عیسائی کیتھولک فرقے سے تھا۔ اس نے "سوسائٹی آف جیسس" کے نام سے نیا مذھبی کوڈ یعنی فرقہ ایجاد کیا اور اس سوسائٹی کا مقصد پوپ کی مدد کرنا تھا۔ یعنی جس طرح صیہونیوں کی تنظیم فری میسن دجال اور شیطان کی راہ ہموار کرنے کا کام کرتی ہے اسی طرح اکنیشس کی سوسائٹی آف جیسس کا مقصد عیسائی پوپ کی راہ میں حائل تمام رکاوٹیں دور کرنا تھا، لازمی طور پر یہ صیہونیوں کی تنظیم فری میسن کے لیے شدید خطرہ تھا۔ اس لیے صیہونیوں نے اس تنظیم اور اس کے بانی کو عوام میں متذلل کروایا اور انہیں ظاہری ریاکار بناکر اتنا زلیل کروایا کہ آج کوئی عیسائی اس فرقے کا نام لینا بھی پسند نہیں کرتا۔ اس فرقے کی تخلیق اور اس کے مقاصد کو ملیا میٹ کرنے کا اعتراف صیہونی دانا بزرگ اسی دستاویز میں نیچے بھی کرتا ہے۔
اب ہم دستاویز مزید آگے پڑھتے ہیں۔ ۔ ۔
دنیا کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اس کا حکمران اعلیٰ کون ہے؟ اس کا تعلق 'رومن کیتھولک' فرقے سے ہے یا وہ 'صیہونی النسل' ہے۔ لیکن ہم جو خدا کی منتخب کردہ قوم ہیں اس بات سے لاتعلق نہیں رہ سکتے۔
اگر ساری دنیا کے غیر یہود متحد ہوجائیں تو شاید کچھ عرصے کے لئے ہمارے مقابلے میں کامیابی حاصل کرسکتے ہیں۔ لیکن اس خطرے سے ہم اس لئے محفوظ ہیں کہ خود ان میں آپس میں شدید اختلافات ہیں اور ان اختلافات کی جڑیں اتنی گہری ہیں کہ انہیں کبھی بھی ختم نہیں کیا جاسکتا۔ ہم نے گزشتہ بیس صدیوں میں غیر یہود کے ذاتی اور قومی اختلافات کو اتنی ہوا دی ہے اور ان میں عقائد کے اختلافات اور نسلی نفرتوں کو اتنا بھڑکایا ہے کہ اب انہیں ختم کرنا ممکن ہی نہیں رہا۔
یہی وجہ ہے کہ دنیا میں کوئی ایک ملک بھی ایسا نہیں ہے جو ہمارے خلاف کسی دوسرے ملک کی مدد پر آمادہ کیا جاسکے۔ یہ بات سب کو اچھی طرح معلوم ہے کہ ہمارے خلاف کیا ہوا کوئی معاہدہ خود ان کے مفاد کے لیے نقصان دہ ہوگا۔
اس فرقے کی بنیاد (IGNATIUS OF LOYLA) نے سن 1533 میں ڈالی تھی۔ صیہونیوں نے اپنی چاکبدستی سے اس فرقے کے کردار کو مسخ کرکے عوام میں اس طرح متعارف کرایا کہ اب یہ لفظ ہی ریاکاری کے معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔
(قارئیں جس اگنیشس کا ذکر ہم نے اوپر کیا تھا یہ وہی ہے ۔اس کے علاوہ صیہونی دانا بزرگ اعتراف کرتا ہے کہ اگر پوری دنیا کے غیر یہود آپس میں مل جائیں تو پھر ان سے شدید مقابلا شروع ہوسکتا ہے۔ ساتھ میں اعتراف کرتا ہے کہ ہم نے انہیں متحد ہونے سے روکنے کے لیے بیس صدیاں محنت کی ہے۔ ہم نے انہیں آپس میں اتنا الجھا دیا ہے اور ان کے نظریات آپس میں اتنے متذلل کردیے ہیں کہ اب وہ متحد ہو ہی نہیں سکتے۔ مثال کے طور پر صیہونیوں نے مسلمانوں کو شیعہ سنی وہابی وغیرہ میں تقسیم کرکے ہر ایک فرقے کو اتنے نظریات دیے ہیں اور اتنے دلائل سے آراستہ کیا ہے کہ اب یہ فرقے قیامت تک صیہونیوں کے خلاف متحد نہیں ہوسکتے۔ اگر کہیں مسلمان آپس میں متحد ہونے لگیں تو صیہونیوں کے تخلیق کردہ ایجنٹ جو مولوی، ذاکر اور علماء کے روپ میں موجود ہوتے ہیں فورا فرقہ واریت کا منجن بیچنا شروع کردیتے ہیں تاکہ مسلمانوں کے درمیاں پھر سے مسلکی بحث شروع ہوجائے اور یوں مسلمان صیہونیوں کے خلاف متحد ہونے کا سوچیں بھی نہ۔)
اب ہم مزید آگے پڑھتے ہیں۔ ۔ ۔
ہم بےانتہاء طاقت کے مالک ہیں۔ ہماری طاقت سے صرف ِنظر کرنا ممکن ہی نہیں ہے اور جب تک اس میں ہمارا خفیہ ہاتھ نہ ہو کوئی ملک کسی دوسرے ملک سے کوئی ادنیٰ سا معاہدہ بھی نہیں کرسکتا۔ (PER ME REGES REGNSNT) میرے ہی توسط سے بادشاہ حکومت کرتے ہیں۔
انبیاء کے قول کے موجب خدا نے ہمیں دنیا پر حکمرانی کرنے کے لیے خود منتخب کیا ہے۔ خدا نے ہمیں اس لئے غیر معمولی ذہانیت بھی بخشی ہے تاکہ ہم اس منصب کے اہل ہوسکیں جس کے لئے ہمارا انتخاب کیا گیا ہے۔ اب اگر یہ دوسرے بھی اتنے ہی ذہین ہوجائیں تو وہ ہمارے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے لیکن اگر ایسا ہوا بھی تو ہم چونکہ پہلے ہی سے مستحکم ہوچکے ہیں، یہ نئے لوگ ہمارا مقابلہ نہیں کرسکیں گے۔ اگر ایسا ہوا تو یہ مقابلہ بڑا شدید ہوگا۔ یہ ایسی جنگ ہوگی جو چشم فلک نے آج تک نہ دیکھی ہوگی۔
(قارئیں ! یہودیوں کو اللہ نے دھتکاردیا تھا، ان پر لعنت کردی تھی اور انہیں بطور سزا پوری دنیا میں زلیل ہونا لکھ دیا تھا مگر یہ صیہونی جنہوں نے نہ تو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت کو مانا، نہ حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کا اقرار کیا، یہ آج بھی اس گھمنڈ اور تکبر میں ہیں کہ یہ آج بھی اس دنیا کی سب سے ذہین قوم ہیں۔ یہ آج بھی سمجھتے ہیں کہ اللہ کی منتخب کردہ بہترین قوم یہی ہیں۔ قرآن پاک میں اور احادیث رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے دور میں یہودی ہی پوری دنیا میں سب سے زیادہ ذہین قوم تھی لیکن ان کی جانب سے انبیاءکرام کو شہید کرنے اور بیشمار انبیاء کا انکار کرنے کی وجہ سے اللہ نے ان سے منتخب شدہ قوم کا درجہ چھین لیا اور پھر اللہ کی طرف یہ دھتکاردیے گئے لعنت کردیے گئے۔
آج اللہ کی منتخب قوم کا درجہ صرف اُمت محمدیہ کو حاصل ہے۔ اللہ کی قدرت ہے کہ اس وقت مسلمان ہی سب سے زیادہ ذہین قوم ہیں، آپ سائنس کی ہی مثال لیجیے یہودی جس سائنس پر اتراتے ہیں اس کے خالق مسلمان ہی تھے۔ مگر بعد میں صیہونیوں نے مسلمانوں کو تعلیم سے مکمل دور کرکے جاہل بنایا، مسلمان ممالک میں کاپی کلچر کر فروغ دیکر انہیں بیکار کردیا تاکہ یہ قوم ترقی یافتہ نہ ہوسکے، ریسرچ کرکے یہودیوں سے آگے نہ نکل جائے۔ مسلمانوں کو تعلیم سے دور کرکے یہودیوں نے خود ریسرچ کے شعبے پر توجہ دی اور جو سائنس یہودیوں کو مسلمانوں سے ملی آج اسی پر اتراکر مسلمانوں کو جاہل گنوار کہتے پھرتے ہیں۔)
اب ہم مزید آگے پڑھتے ہیں ۔ ۔ ۔
وہ وقت کہ جب دشمن کے ذہین اور ذی فہم افراد ہماری جگہ لے سکتے تھے، گزر چکا ہے۔ اب انہیں بہت دیر ہوچکی۔ تمام ملکوں کے نظام کے پہیے ایک انجن کی طاقت سے گھومتے ہیں اور وہ انجن ہمارے قبضے میں ہے۔ وہ انجن جو ملکوں کی انتظامی مشین چلاتا ہے وہ ہے سرمایہ۔ سیاسی معاشیات کا علم جو ہمارے دانا بزرگوں نے ایجاد کیا تھا، مدت سے سرمایہ کو شاہی عظمتوں سے ہمکنار کر رہا ہے۔
سرمایہ، اگر بغیر قیود کے تعاون کرے تو اسے صنعتوں اور تجارت کے میدان میں اجارہ داری قائم کرنے کے لئے آزاد ہونا چاہیے۔ ایک نادیدہ ہاتھ پہلے سے ہی دنیا کے گوشے گوشے میں اس پر عمل کروا رہا ہے۔ یہ آزادی ان لوگوں کو جو صنعتی شعبے سے تعلق رکھتے ہیں ایک سیاسی قوت بنادے گی اور اس قوت سے عوام کو کچلنے میں مدد ملے گی۔
(قارئین ! صیہونی کہہ رہا تھا کہ ان کے پاس اب دنیا کو چلانے والی انجن موجود ہے اور وہ انجن ہے "سرمایہ کاری"۔ یہ مختلف ممالک میں سرمایہ کاری کرکے ان ممالک کے اداروں پر قبضے کرتے ہیں۔ ایسٹ انڈیا کمپنی صیہونیوں کی ہی تھی جس نے برصغیر پاک و ہند میں سرمایہ کاری سے آغاز کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے اس کمپنی نے پورے ہندوستان پر قبضہ کرلیا۔ آج کے دور میں یہ سرمایہ کاری جدید طریقوں سے مختلف ممالک کو زیر کرنے کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ آج ہر ملک مر رہا ہے کہ دنیا والے ہمارے پاس آکر سرمایہ کاری کریں اور جو ملک سرمایہ کاری کرنے پر راضی ہوجائے تو اسے ہر طرح کی سہولتیں دینے کا واعدہ کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر صیہونی امریکہ میں کھربوں ڈالرز سرمایہ کاری کریں تو امریکی حکومت ان کی غلامی کو بھی قبول کرلیتی ہے اور یہی کچھ امریکہ کے ساتھ ہو بھی چکا ہے۔ آج امریکہ مکمل طور پر صیہونیوں کے سرمایہ پر کھڑا ہے، جس دن صیہونی یہ سرمایہ نکال لیں تو امریکہ کا حال افغانستان سے مختلف نہیں ہوگا۔
اس سرمایہ کاری سے صیہونی امریکی حکومت سے اپنے مفاد کے لیے کام کرواتے ہیں، کس ملک پر نئی جنگ شروع کرنی اور کس ملک کے قدرتی زخائر پر قبضہ کرنا ہے یہ سب امریکہ کو صیہونی ہی بتاتے ہیں، امریکی حکومت تو کٹھ پتلی ہوتی ہے اس حکومت کو چلانے والی اصل انجن صیہونیوں کا سرمایہ ہے۔ یہی حال دنیا کے باقی ممالک کا بھی ہے۔)
اب ہم مزید آگے پڑھتے ہیں ۔ ۔ ۔
فی زمانہ عوام کو جنگ میں جھونکنے کے بجائے انہیں نہتا کرنا زیادہ سودمند ہے۔ آگ بجھانے کے بجائے ان جزبات کو جو بھڑک کر شعلوں کی شکل اختیار کرچکے ہیں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنا زیادہ اہم ہے۔ اور دوسروں کے نظریات کو غلط ثابت کرنے کی کوشش کرنے کے بجائے یہ زیادہ فائدہ مند ہے کہ ان کو اچھی طرح سمجھ کر ان کی اس طرح تشریح او ر وضاحت کی جائے کہ وہ ہمارے مقاصد کے کام آسکیں۔
ہمارے ادارے (فری میسن) کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ عوام کے ذہنوں کو تنقید سے پراگندہ کیا جائے اور قبل اس کے کہ مزاہمت کے جذبے کو ابھارنے والے عوامل ان پر اثرانداز ہونا شروع ہوجائیں ان کا رخ موڑ دیا جائے اور دماغی قوتوں کو بھٹکا کر لفاظی (تقاریر) کی مصنوعی جنگ میں الجھادیا جائے۔
(قارئیں ! صیہونی اس دنیا پر موجود تمام مذاھب میں سب سے کم تعداد میں ہیں، ان کے ملک اسرائیل کا کل رقبہ ہی ہمارے پاکستان کے ایک شہر کراچی سے بھی چھوٹا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ کبھی نہیں چاہتے کہ کوئی ملک براہ راست ان سے جنگ کرے کیونکہ لڑائی کی صورت میں ان کی اسرائیل میں موجود
بچی کچھی تعداد بھی جہنم واصل ہوجائے گی اس لیے صیہونی دانا بزرگ کہہ رہا تھا کہ آگ کو بجھانے کے بجائے آگ لگانے والوں کو ٹھنڈا کردیا جائے تاکہ دوبارہ کبھی آگ لگے ہی نہ۔ لوگوں سے جنگ کے بجائے انہیں ہتھیاروں سے نہتا کردیا جائے تاکہ وہ جنگ کے لائق ہی نہ رہیں۔
دوستو نواز شریف نے حکومت میں آکر پاکستان میں اسلحہ لائسنس کے اجرا پر بھی پابندی لگادی تھی جب کے پرانے لائسنس کی تجدید پر بھی بھاری فیس لگادی گئی۔ دوسری طرف ہمارا دشمن بھارت جس کے کندھے پر اسرائیلی صیہونی بندوق چلاتے ہیں، اپنی عوام کو مسلسل پاکستان سے جنگ کیلئے تیار کر رہا تھا۔ یعنی ایک طرف ہندوستان اپنی فوج اور عوام کو مسلح کر رہا تھا تو دوسری طرف پاکستان میں نواز شریف عوام کے پاس موجود ہتھیاروں کے لائسنس بھی منسوخ کرکے عوام کو مکمل نہتا کر رہا تھا تاکہ اگر بھارت جنگ کردے تو لڑائی کے لئے صرف فوج ہی لڑسکے اور باقی تمام عوام نہتے ہونے کی وجہ اپنے گھروں میں محصور رہیں۔
یاد رہے 65 کی جنگ میں پاک فوج کے ساتھ مقامی لوگ بھی اپنے اپنے ہتھیار لیکر ڈیوٹی پر آگئے تھے جس میں خود عمران خان بھی شامل تھا جو اپنے والد کی بندوق لیکر ڈیوٹی دینے پہنچ گیا تھا۔ زرا تصور کیجیے اگر عوام کے پاس ہتھیار ہی نہ ہوں تو حالت جنگ میں عوام کا کردار کسروں سے زیادہ نہیں رہ جاتا جو یا تو تالیاں بجاسکتے ہیں یا پھر رو سکتے ہیں جبکہ جنگ میں مردوں کی طرح لڑنے کے لیے ان کے پاس کوئی ہتھیار ہی نہیں بچتے۔)
اب ہم مزید آگے پڑھتے ہیں ۔ ۔ ۔
ہر زمانے میں دنیا کے عوام اور افراد کے لئے عمل کے مقابلے میں اقوال زیادہ مقبول ہوتے رہے ہیں۔ عوام کو صرف تماشہ چاہیے اور اس تماشے سے وہ مطمئن ہوجاتے ہیں۔ انہیں تھوڑا سا رک کر یہ سوچنے کی فرصت نہیں ہوتی کہ یہ قول کتنا قابل عمل ہے۔ لہٰذہ ہم ایسے نمائشی ادارے قائم کریں گے جن کا کام یہ ثابت کرنا ہوگا کہ ترقی کے لئے ان کا وجود کتنا ضروری اور فائدہ مند ہے۔
ہم تمام سیاسی جماعتوں اور مکتبہ ہائے فکر کا آزاد خیال سیاسی کردار اختیار کریں گے اور تقریربازوں کو آزاد خیالی کی زبان دے کر انہیں اتنا بلوائیں گے کہ سننے والوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوجائے اور انہیں تقریر کے فن سے ہی نفرت ہوجائے۔ رائے عامہ کو اپنے قابو میں رکھنے کے لئے اسے پراگندہ رکھنا ضروری ہے اور یہ اس طرح ممکن ہے کہ ہم بھانت بھانت کے اختلافات رائے کے مواقع فراہم کریں گے اور ان اختلافات کو اتنے عرصے تک شہ دیتے رہیں کہ غیر یہودیوں کے دماغ مختلف نظریات کی بھول بھلیوں میں گم ہوجائیں اور ان کے دماغ میں یہ بات بیٹھ جائے کہ بہترین بات یہی ہے کہ رموز مملکت کے بارے میں (جنہیں عوام کے لئے سمجھنا ضروری نہیں ہے) کوئی رائے زنی ہی نہ کی جائے۔ وہ یہ سمجھ لیں کہ جس کا کام اسی کو ساجھے۔ ان معاملات کو سمجھنا انہی لوگوں کا کام ہے جنہیں عوام کی قیادت کرنی ہے ہمیں اس سے کوئی سروکار نہیں ہونا چاہیے۔ یہ پہلا راز ہے۔
(قارئیں ! آپ نے نوٹ کیا صیہونی دانا بزرگ نے پہلا رازکیا بتایا؟ اس نے کہا کہ عوام کو بس تماشہ چاہیے ہوتا ہے، بس کوئی ہو جو اچھا بولے اور عوام اس کے پیچھے چلنے کو اپنے لیے سعادت سمجھے، ایسے لوگ جو حقوق دو یا آزاد خیالی کے نعروں کے ساتھ آگے آتے ہیں، سیاسی جماعت کی صورت میں یا کسی تھرڈ پارٹی کی شکل میں، وہ عوام کو بھا جاتے ہیں، عوام ان کے نئے تماشوں سے خوش ہوکر ان کے پیچھے چل پڑتی ہے اور اسی طرح وہ آزاد خیال سیاسی رہنماء عوام کو صیہونی ایجنڈے پر چلاتے رہتے ہیں جبکہ عوام کو پتا ہی نہیں چلتا کہ ان کا نام نہاد لیڈر انہیں لے کس طرف جارہا ہے۔ دوسری بات جو صیہونی دانا بزرگ نے بتائی وہ یہ تھی ان جماعتوں یا نمائشی اداروں کے آپس کے اختلافات اتنے بڑھادیے جائیں گے کہ لوگ ان کی تقریریں سن سن کر تنگ آجائیں گے اور بالآخر لوگ اس بات کو ماننے پر مجبور ہوجائیں گے کہ حکومت کرنا صرف حکمرانوں کا ہی کام ہے ہمیں اس پر مغزماری کرکے کیا ملے گا۔ جب اس طرح کی سوچ قائم ہوجائے گی تو سمجھیں صیہونیوں کی قائم کردہ سپر گورنمنٹ کی راہ میں حائل تمام رکاوٹیں دور ہوجائیں گے۔ کچھ لوگ اگر مخالفت کریں تو صیہونی انہیں پیسے اور سرمایے سے خرید کر یا پھر قتل کرواکے اپنے ایجنڈے کی تکمیل کریں گے، اصل مسئلہ عوام ہوتا ہے جسے دریا میں بہانے کے لیے صیہونیوں کو لبرل آزاد خیال جماعتیں خود ہی تخلیق کرنا پڑتی ہیں اور پھر خود ہی عوام کو ایسی راہ پر بھٹکایا جاتا ہے جس کا فائدہ صرف اور صرف صیہونیوں کو ہی ہونا ہے جبکہ اسی دوران عوام کا ذہن صیہونی سازشوں سے یکسر غافل ہوجائے گا۔)
اب ہم مزید آگے پڑھتے ہیں جس میں صیہونی دوسرے اہم راز کے متلق بتاتا ہے ۔ ۔ ۔
ہماری حکومت کی کامیابی کا دوسرا راز مندرجہ ذیل ہے
قومی کمزوریاں، عادات، جذبات اور معاشرتی زندگی کے حالات بیان کرنے میں اس قدر غلو سےکام لینا چاہیے کہ عام آدمی کو یہ پتہ ہی نہ چل سکے کہ وہ اس افراتفری میں کہاں کھڑا ہے۔ اور اس طرح لوگ دوسروں کا نقط نظر سمجھنے کی صلاحیت ہی کھو بیٹھیں۔ یہ افراتفری ہماری طرح ایک اور طریقے سے بھی مدد کرے گی اور یہ اس طرح کہ مختلف جماعتوں میں پھوٹ پڑجائے گی اور ان تمام اجتماعی قوتوں کے جو ہماری اطاعت قبول کرنے پر تیار نہیں ہیں، قدم اکھاڑدے گی اور ہر فرد کی حوصلہ شکنی کرے گی جو اپنی ذاتی اختراعی صلاحتیوں کو بروئے کار لاکر ہمارے کام میں رکاوٹ ڈالنے کا سبب بن سکتا ہے۔
ہمارے لئے انفرادی اختراع سے زیادہ خطرناک اور کوئی چیز نہیں ہے اور اگر اس اختراع کے پیچھے فطانت اور ذہانت بھی ہو تو ایسی اختراع ان دس لاکھ آدمیوں سے زیادہ خطرناک ہوسکتی ہے جن میں ہم نے نفرت کی پرورش کی ہے۔
ہمیں غیر یہودیوں کے تعلیمی شعبے کو اس طرح منظم کرنا چاہیے کہ جب بھی وہ کسی ایسے مسئلے سے دوچار ہوں جس میں اختراع کی ضرورت ہو تو وہ اپنے آپ کو بیکس و معذور سمجھ کر خود ہی ہار مان لیں۔
(قارئین ! اوپر دوسرے راز سے پردہ اٹھایا گیا ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ عوام کو قومی کمزوریوں، خامیوں اور معاشرتی مسائل میں اتنا الجھادیا جائے گا کہ انہیں سمجھ ہی نہیں آئے گی کہ ہو کیا رہا ہے اور ہم کر کیا رہے ہیں۔ اسی دوران صیہونی کہتا ہے کہ اس افراتفری کے عالم میں اگر کوئی ہمارے یعنی صیہونیوں کے خلاف بولے گا تو عوام اسے سنجیدہ ہی نہیں لے گی۔ جبکہ صیہونی اعتراف کرتا ہے کہ یہ اختراعی سوچ کے حامل افراد جو ہمارے خلاف کھڑے ہوسکتے ہیں ہمارے نزدیک دس لاکھ عام آدمیوں سے بھی زیادہ خطرناک ہیں۔ ان اختراعی دماغ والے انسانوں کی ایک مثال علامہ اقبال بھی ہیں جنہوں نے صیہونیوں کے پرخچے اڑادیے، ایک اکیلے اقبال نے پوری امت مسلمہ بالخصوص برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں میں ولولہ خیز جزبہ پیدا کردیا تھا اور اس جذبے نے مسلمانوں کو انگریز صیہونیوں کے خلاف برسرپیکار کرنے پر اکسایا اور اسی جذبے کی بناء پر مسلمانوں نے برصغیر سے انگریز کو نکال کر الگ وطن پاکستان قائم کیا۔ ایسے ہی اختراعی سوچ والے افراد کے متعلق صیہونی دانا بزرگ کہہ رہا ہے کہ ایسے لوگ ہمارے نزدیک دس لاکھ عام آدمیوں سے بھی زیادہ خطرناک ہیں۔ دوستو آج کے دور میں جو بھی صیہونیوں کے خفیہ عزائم آپ کو بتاتا ہے، ان کے منصوبوں کو بےنقاب کرتا ہے تو سمجھ لیں کہ وہ صیہونیوں کے لیے شدید خطرہ ہے، آپ سب اس شخص کی حفاظت اپنے زمے لیجیے کیونکہ ایسے اشخاص بہت قیمتی ہیں، وہی لوگ ہم مسلمانوں کو صیہونیوں کے خلاف کھڑا کرسکتے ہیں۔)
اب ہم دستاویز کو مزید آگے پڑھتے ہیں۔ ۔ ۔
وہ تناؤ جو آزادی عمل کے نتیجے میں وجود میں آتا ہے، جب کسی دوسرے کی آزادی سے ٹکراتا ہے تو اپنی توانائی کھودیتا ہے ۔ اس ٹکراؤ کے نتیجے میں بھیانک نفسیاتی صدمے، ناامیدیاں اور ناکامیاں پیدا ہوتی ہیں۔
ان تمام باتوں سے ہمارا مقصد یہ ہے کہ ہم غیر یہودیوں کو تھکا کر اتنا مضمحل کردیں کہ وہ آخرکار ہمیں اس قسم کی بین الاقوامی طاقت پیش کرنے پر مجبور ہوجائیں جو ہمیں اس قابل کردے کہ بغیر کوئی تشدد کئے ہم دنیا کے ملکوں کی ساری طاقت رفتہ رفتہ چوس کر ایک سپر گورنمنٹ بناسکیں۔ موجودہ حکمرانوں کے بجائے ہم ان پر ایک ایسا عفریت مسلط کردیں گے جو اس سپر گورنمنٹ کی انتظامیہ کہلائے گی۔ اس کے پنجے ہر سمت گڑے ہوئے ہوں گے اور اس کی تنظیم اتنی وسیع ہوگی کہ ہمارے لئے ساری دنیا کی قوموں کی تسخیر میں ناکامی، ناممکن ہوگی۔
یہاں پر پانچوین دستاویز ختم ہوئی۔
------------------------------------------------------
دوستو ! آخری الفاظ میں صیہونی دانا بزرگ نے پوری پانچویں دستاویز کا نچوڑ بیان کیا ہے جس کا لب لباب یہ ہے کہ ہم یہودیوں کے علاوہ دنیا کی تمام اقوام کو ان چالاکیوں، مکاریوں، دھوکے بازی اور سرمایہ کے انجن کی لالچ سے اتنا تھکادیں کہ وہ ایک دن مجبور ہوکر ہمیں ایک بین الاقوامی سپر گورنمنٹ بنانے کا اختیار دے دیں اور بدلے میں ہم ان کے ملک کی ہر طرح سے حفاظت کی ضمانت دے دیں۔ بقول صیہونی دانا بزرگ ہم ان ممالک کو تھکاکر انہیں مجبور کریں گے کہ پھر جب وہ ہماری غلامی کرنے پر راضی ہوجائیں گے تو ہم ان کے ملکوں کی تمام تر طاقت کو چوس چوس کر اپنی سپر گورنمنٹ میں شامل کرلیں گے اور پھر ان کے حکمرانوں کے بجائے ہم اپنے ایسے سفاک درندے اور بےرحم حکمران ان پر مسلط کریں گے کہ جو ہماری سپر گورنمنٹ کے صیہونی بادشاہ کی انتظامیہ کہلائے گی۔
قارئین۔۔۔
سپر گورنمنٹ سے مراد اقوام متحدہ کو تبدیل کرکے ایک عالمی حکومت تشکیل دینا ہے جس کی حکومت پوری دنیا پر ہوگی اور وہ دنیا کے تمام ممالک پر اپنے گورنرز تعینات کریں گے جو ان ممالک کی تمام معیشت، خزانے اور قدرتی معدنیات پر قبضہ کرکے اسے سپر گورنمٹ چلانے والے صیہونی النسل بادشاہ کے قدموں میں لادے گی۔
یہ بادشاہ کون ہوگا اس کے متلق صیہونی کہتے ہیں کہ وہ خالص صیہونی النسل ہوگا۔ کچھ خفیہ پروٹوکولز کے مطابق وہ کچھ صیہونیوں کو باقائدہ ایک سفاک بےرحم بادشاہ بنانے کے لیے بچپن سے ہی تیار کر رہے ہیں، وہ ایک پوری نسل تیار کرتے آرہے ہیں مگر یہ بھی ممکن ہے کہ اس بادشاہ سے مطلب دجال ہو یا دجال سے پہلے انے والا مسیحہ ہو۔ دجال اوت مسیحہ دونوں کے متعلق صیہونیوں کا یہی عقیدہ ہے کہ وہ خالص صیہونی النسل ہوں گے اور وہ فرعون و نمرود کی طرح پوری دنیا پر حکمرانی کریں گے۔
ان تمام باتوں سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اقوام متحدہ کے تحت عالمی حکومت کا قیام ضرور ہونے والا ہے، کسی بھی وقت اقوام متحدہ کے بنیادی آئین میں ترمیم کرکے اسے ایک عالمی حکومت بنایا جاسکتا ہے اور اس کے تمام اداروں کو عالمی وزارتیں۔ اس طرح اس عالمی حکومت کو چلانے والا کون ہوگا۔ میرے مطابق وہ دجال سے پہلے انے والا مسیحہ ہوگا وہ گراونڈ تیار کرے گا وہ مسجد اقصی شہید کرکے وہام ہیکل سلیمانی تعمیر کروائے گا جس کے بعد دجال آئے گا اور مسیحہ اپنی بادشاہت دجال کو دیدے گا۔ ممکن یہی ہے کہ اگلے 50 سے 100سالوں کے اندر اندر اقوام متحدہ ایک عالمی حکومت ضرور بن جائے گی اور عین ممکن ہے اتنے عرصے میں یہودیوں کا مسیحہ بھی آجائے ۔
بدقسمتی ہے کہ آج کا مسلمان صیہونیت کے خفیہ عزائم سے ناواقف دنیا کی زندگی میں مگن ہڑا ہوس ہے، صیہونی دانا بزرگ نے سچ کہا کہ ہم انہیں اتنا مگن کردیں گے کہ وہ اس افراتفری میں یہ سمجھنے سے ہی قاصر ہوجائیں گے کہ آخر ہو کیا رہا ہے، کون ان کا دشمن ہے کون ان کا دوست۔
آج مسلمان اپنے کلمہ گو بھائیوں پر شیعہ، سنی اور وہابی وغیرہ کے نام سے کفر کے فتوے لگانے میں مصروف ہیں، ایک دوسرے کو قتل کرنے کو بھی ثواب سمجھ رہے ہیں، کوئی صیہونیوں کے خلاف اعلان جنگ نہیں کر رہا۔ کوئی ایسا مسلمان دکھادیں جو صیہونیوں کے خلاف برسرپیکار ہو؟ اگر نہیں ہے تو مان لیجیے کہ صیہونی اپنے مقاصد میں بڑی حد تک کامیاب ہوچکے ہیں۔
مسلمانوں ہوش کرو ! آج اگر اقوام متحدہ اپنے آئین میں ترمیم کرکے دجال کو اپنا خدا مان کر اس کی بادشاہی میں ایک عالمی حکومت کے قیام کا اعلان کردے تو مجھے بتاؤ تم کیا کرسکوگے؟ کیا تم میں اتنی ہمت ہے کہ اقوام متحدہ کے خلاف لڑسکو؟ بولو ؟ تم صرف شیعہ، سنی، وہابی بن کر ایک دوسرے کو قتل ہی کرسکتے ہو، تم میں اتنی ہمت کہاں کہ ان مسلکی اختلافات کو بھلاکر شیعہ سنیوں اور وہابیوں کو ملاکر صیہونیوں کے قتل عام کا اعلان کرو۔ جب صیہونیوں کی عالمی سپر گورنمنٹ قائم ہوگئی تو وہ تم پر کوئی رحم نہیں کھائیں گے۔ نہ شیعہ دیکھیں گے، نہ سنی اور نہ ہی وہابی، وہ تم سب کو انتہائی بےرحمی اور سفاکی سے صرف یہ کہہ کر قتل کردیں گے کہ تم سب مسلمان ہو۔
تحریر: یاسررسول
: یہ بھی پڑھیں
#TheIlluminatiProtocolsUrdu
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں