ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی پراسرار زندگی (آخری قسط 3)

 


ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی زندگی کے بارے میں سب سے بہتر معلومات انکے خاندان کے علاوہ بھلا کون بتاسکتا ہے بالخصوص عافیہ کے بچے احمد اور مریم، جو پراسرار گمشدگی کے دوران عافیہ کے ساتھ ہی تھے اور سابقہ شوہر "امجد خان" جو پاکستان و امریکہ میں عافیہ کی تمام سرگرمیوں کے عینی گواہ ہیں۔ لیکن حیرت انگیز طور پر اتنے اہم افراد کا موقف پاکستانی قوم جانتی ہی نہیں یا یوں کہیں کہ جان بوجھ کر عوام سے چھپایا جاتا ہے۔ کس مقصد کے لئے چھپایا جاتا ہے ہم امید کرتے ہیں کہ یہ سوال آپ فوزیہ صدیقی صاحبہ سے ضرور پوچھیں گے۔۔۔

 

اگر غلطی سے بھی کوئی فوزیہ صدیقی سے عافیہ کے 26 سالا بیٹے احمد سے ملاقات کا کہتا ہے تو فوزیہ صاحبہ فورا بھڑک جاتی ہیں۔ ایک ہی جملے میں بات ختم کردیتی ہیں کہ احمد کو کسی سے ملنے کی اجازت نہیں۔۔۔۔

 

سوال یہ ہے کہ اتنے اہم گواہ کو کسی سے ملنے کی اجازت کیوں نہیں ہے؟ کس مقصد کے لیے احمد اور بیٹی مریم کو چھپاکے رکھا ہے؟ اگر فوزیہ صاحبہ کا موقف سچائی پر مبنی ہے تو پھر کچھ بھی چھپانے کی ضرورت ہی کیوں پیش آرہی ہے وہ بھی عینی گواہوں کو؟ یقین کریں عینی گواہوں کو وہی لوگ چھپاتے جہاں دال میں کچھ کالا ہو۔

ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی پراسرار زندگی (قسط 1)

ڈاکٹرعافیہ صدیقی کی پراسرار زندگی (قسط 2)

اگر پاکستانی قوم عافیہ کی رہائی کے لیے سڑکوں پر خوار ہوسکتی ہے تو کم سے کم ان کا حق تو بنتا ہے کہ فوزیہ صدیقی ان عافیہ کے بچوں کی ملاقات کروائیں یا کم سے کم بچوں کو بھی عافیہ رہائی کے احتجاجی جلوسوں میں شریک کیا جائے اور انہیں میڈیا پر لاکر بیان دلوایا جائے کیونکہ وہ تمام واقعات کے چشم دید گواہ ہیں۔

 

سوال پوچھنا عوام کا حق ہے کیونکہ یہ بچے عافیہ کے ساتھ ہی اغوا ہوئے تھے، یہ سب کچھ جانتے ہیں، یہ ہر واقعے کے چشم دید گواہ ہیں۔

 

سن 2003 میں جب عافیہ پراسرار طور پر کراچی سے غائب ہوئیں تو اس وقت احمد مریم اور سلیمان تینوں عافیہ کے ساتھ ہی غائب ہوئے۔۔۔ آج اگر احمد یا مریم سے پوچھا جائے کہ آپ 2003 سے 2008 تک کہاں کہاں رہے تو یقینا وہ سب کچھ بتادیں گے لیکن ان سے جان بوجھ کر نہیں پوچھا جاتا کیونکہ فوزیہ صدیقی انہیں کسی سے ملنے نہیں دیتیں۔ شاید انہیں ڈر ہے کک کہیں پاکستانی قوم کہانی کا دوسرا رخ نہ جان لے۔

 

یاد رہے عافیہ کے کل تین بچے ہیں۔ سب سے بڑا بیٹا احمد ہے، اسکے بعد بیٹی مریم ہے اور آخر میں سلیمان ہے۔ سلیمان کے بارے میں کسی کو نہیں معلوم کہ وہ کہاں ہے۔ شاید عافیہ کو معلوم ہو۔۔۔ البتہ احمد اور مریم دونوں آج بھی عافیہ کی بہن فوزیہ صدیقی کے ساتھ کراچی والے گھر میں ہی رہتے ہیں۔

 

ایک برطانوی صحافی عافیہ کے بچوں سے ملنے فوزیہ صدیقی کے گھر پہنچ گئیں، ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے ان سے ملاقات تو کی لیکن جب صحافی نے گزارش کی کہ بچوں سے ملاقات کروائیں تو فوزیہ صدیقی بھڑک اٹھیں اور صاف صاف انکار کردیا کہ ان سے ملنے کی اجازت نہیں یعنی آپکو جو کچھ پوچھنا ہے مجھ سے پوچھیں۔۔۔ ھممم۔۔۔

 

فوزیہ صدیقی صاحبہ صرف ایک ہی موقف بار بار کیوں بیان کرتی ہیں کہ عافیہ کو عالمی سازش میں پھنسایا گیا۔ بگرام میں قید کرکے ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے، گالیاں دی گئیں اور امریکی عدالت میں انصاف کا قتل کیا گیا ؟

 

فوزیہ صدیقی کے مطابق عدالت میں چلایا گیا کیس عالمی گریٹ گیم کا حصہ تھا، انکے بقول امریکیوں نے خود ہی سکرپٹ تیار کیا اور خود ہی میری بہن پر کیس چلاکر اسے سزا بھی سنادی۔

 

عافیہ کا القائدہ سے تعلق تھا یا نہیں؟


اس پر فوزیہ صدیقی کہتی ہیں کہ یہ سب امریکی سی آئی اے کا الزام ہے، ایسا الزام پہلی مرتبہ امریکی میڈیا نے لگایا تھا اور وہاں کا آدھا میڈیا سی آئی اے کیلیے ہی کام کرتا ہے۔

 

سب باتیں اپنی جگہ لیکن فوزیہ صدیقی 2003 سے لیکر 2008 تک پورے پانچ سال عافیہ کہاں رہی کے بارے میں واضع طور پر کچھ بھی بتانے سے قاصر دکھائی دیتی ہیں یا یوں کہیں کہ انہیں معلوم تو ہے لیکن جان بوجھ کر بتاتی نہیں۔۔۔۔ یقینا احمد اور مریم نے انہیں سب کچھ بتایا ہوگا کہ وہ پانچ سال کہاں کہاں رہے لیکن فوزیہ صدیقی یہ معلومات پبلک کرنے سے ڈرتی ہیں، شاید اس لیے کہ پھر انکی یکطرفہ بیان کی گئی کہانی ازخود فلاپ ہوجائے گی۔

 

جب فوزیہ صدیقی سے ایک صحافی نے سوال پوچھا کہ احمد سے ملنے کی اجازت کیوں نہیں ہے؟ تو فوزیہ صدیقی نے ایک نئی بات بتائی کہ احمد کو اس شرط پر ہمارے حوالے کیا گیا تھا کہ اسے میڈیا کے سامنے نہیں لایا جائے گا۔ صحافی نے پھر پوچھا کہ ایسا حکم آپکو کس نے دیا تو فوزیہ نے ہوا میں انگلی اٹھاتے ہوئے کہا "وہ نیٹورک" ۔۔۔ وہ لوگ جنہوں نے احمد کو ہمارے حوالے کیا۔

 

اس نیٹورک سے غالبا فوزیہ صدیقی کی مراد پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی تھی یا پھر امریکی سی آئی اے. یعنی ایجنسیوں نے احمد اور مریم کو اس شرط پر عافیہ کے گھر والوں کے حوالے کیا تھا کہ انہیں میڈیا پر نہیں لایا جائے گا بصورت دیگر عافیہ کی اصل کہانی بھی میڈیا کو شیئر کردی جائے گی۔ یعنی چپ رہو ہمیں بھی کام کرنے دو اور عافیہ کے بچے بھی لے لو۔ اگر بوکے تو پھر ہم بھی بولین گے تو نقصان آپکا ہی ہوگا یعنی عافیہ متنازعہ ہوجائے گی۔

ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی پراسرار زندگی (قسط 1)

ڈاکٹرعافیہ صدیقی کی پراسرار زندگی (قسط 2)

حیرت انگیز بات یہ بھی ہے کہ احمد کا نام تو گردش کرتا رہتا ہے لیکن احمد کی بہن اور عافیہ کی بیٹی "مریم" جو آج تقریبا 23 سال کی ہوچکی ہوگی اور عافیہ کے ساتھ ہی وہ بھی پراسرار طور پر پانچ سال غائب ہوئی تھی، اسکا ذکر تو کوئی کر ہی نہیں رہا۔۔۔ اسے بھی احمد کی طرح ہی فوزیہ صدیقی نے میڈیا سے چھپاکے رکھا ہوا ہے۔۔۔۔

 

باقی آخری سلیمان جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ چھے ماہ کی عمر میں لاپتہ ہوگیا تھا اسکے بارے میں فوزیہ صدیقی بڑا واویلا کرتی ہیں کہ بتایا جائے سلیمان کہاں ہے لیکن کوئی پوچھے کہ احمد اور مریم کہاں ہیں تو فوزیہ صاحبہ کا پارا ہائی ہوجاتا ہے۔

 

 

عافیہ کے سابقہ شوہر امجد خان کا موقف :


جب ہم نے امجد خان کا موقف لینے کے لیے ان سے ملاقات کی اور سب سے پہلے انہیں فوزیہ صدیقی کا موقف سنایا تو انکا جواب تھا کہ فوزیہ اصل حقائق پر پردہ ڈالنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ وہ آپکی توجہ بھٹکانے کی کوشش کر رہی تھیں۔

 

امجد خان نے بتایا ؛


حقیقت یہ ہے کہ عافیہ کبھی بھی بگرام جیل میں قید نہیں رہی۔ وہ 2003 سے لیکر 2008 تک پورے 5 سال پاکستان میں ہی اپنے تینوں بچوں سمیت مختلف شہروں میں مختلف جگہیں بدل کر رہ رہی تھی جبکہ پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی اس کی مسلسل نگرانی کر رہی تھی۔ پانچ سال کے دوران کچھ عرصہ وہ کوئٹہ میں رہی، کچھ وقت ایران گئی اور بہت سارا وقت اس نے کراچی والے گھر میں اپنی ماں اور بہن فوزیہ صدیقی کے ساتھ بھی گزارا۔ فوزیہ سب کچھ جانتی ہیں۔

 

جب امجد خان سے اس بات کا ثبوت مانگا گیا تو انہوں نے کہانی شروع سے بیان کرتے ہوئے کہا ؛


ہمارے والدین نے ہم دونوں کو ہر طرح سے بہتر جوڑی سمجھتے ہوئے ہماری ارینج میریج کروائی تھی، دراصل میں اور عافیہ دونوں اعلی تعلیم یافتہ ڈاکٹرز تھے جبکہ دونوں ہی اسلامی عقائد پر سختی سے کاربند بھی رہتے تھے۔ ہماری شادی فون پر ہوئی، شادی کے بعد ہم امریکہ چلے گئے لیکن کچھ ہی عرصے بعد مجھے سمجھ آئی کہ میری بیوی بہت تیز مزاج ہے، بالخصوص جہ۔۔۔اد کی خصوصی شوقین تھی۔ وہ مجھے اکثر کہا کرتی تھی کہ میں افغانستان جاؤں، امریکہ کے خلاف جہاد کروں۔

 

ابھی شادی کو چھے ماہ بھی نہیں ہوئے تھے کہ عافیہ نے امریکہ کو چھوڑ کر بوسنیا میں رہائش اختیار کرنے کا مطالبہ کردیا تاکہ بوسنیا میں جہاد کیا جائے لیکن میں نے انکار کردیا۔۔۔ یہ روز روز لا بحث چلتا رہا اور اس دوران ایک دفعہ تو ہماری اتنی شدید بحث ہوگئی کہ میں نے غصے میں آکر دودھ کی بوتل اٹھاکر عافیہ پر پھینک دی جس سے اسکے ہونٹ زخمی ہوئے۔

 

نائن الیون کے بعد عافیہ نے مجھے بتایا کہ امریکی حکومت مسلمان بچوں کو اسلام چھڑوا کر عیسائی بنا رہی ہے لہذہ ہمیں پاکستان واپس چلے جانا چاہیے۔ یاد رہے نائن الیون کے دو سال بعد امریکہ نے عافیہ کو دنیا کی دس خطرناک ترین عورتوں کی فہرست میں شامل کیا تھا اور انکے خلاف ایف بی آئی نے تحقیقات شروع کی تھیں۔

 

امجد خان نے بتایا کہ اس کے چند ماہ بعد ہی عافیہ نے مجھے افغانستان جاکر جہاد کرنے پر اکسایا اور کہا کہ میں نے طالبان سے آپکی بات کرلی ہے، آپکو زابل صوبے کی ایک ہسپتال میں نوکری مل جائے گی لیکن جب میں جہاد میں جانے سے صاف انکار کردیا تو عافیہ بھڑک گئی اور پاگلوں کی طرح میرے سینے پر زور زور سے مکے مارنے لگی اور مجھ سے طلاق کا مطالبہ کردیا۔

 

جن دنوں 2003 میں عافیہ پراسرار طور پر لاپتہ ہوئیں تو امجد خان کہتے ہیں کہ میں بچوں کے لئے بہت پریشان ہوا کیونکہ یہ بچے صرف عافیہ کے ہی نہیں میرے بھی تھے۔ میں نے اپنے سب سے چھوٹے بیٹے سلیمان کو تو دیکھا بھی نہیں تھا کیونکہ وہ طلاق کے بعد پیدا ہوا تھا اور اسکے پیدا ہونے کے بعد عافیہ پراسرار طور پر بچوں سمیت غائب ہوگئی تھی۔

 

امجد خان نے مزید بتایا :


مجھے یقین تھا کہ عافیہ اور بچے پاکستان میں ہی مختلف جگہیں بدل کر رہ رہے ہیں اور اس بات کی تصدیق میں نے تین مختلف ذرائع سے بھی کروائی۔

 

امجد خان کے بقول ؛

 

سب سے پہلے میں نے کچھ افراد کو عافیہ کے گھر کی نگرانی کیلیے ہائر کیا۔ انہوں نے رپورٹ دی کہ عافیہ بچوں سمیت اکثر وہاں آتے جاتے دکھائی دی ہے۔

 

دوسری طرف میں نے آئی ایس آئی سے رابطہ کیا تو مجھے ایک برگیڈیئر نے بریف کیا کہ عافیہ پاکستان میں ہی بچوں سمیت مختلف جگہیں بدل کر رہ رہی ہے اور ہم اس کی مسلسل نگرانی کر رہے ہیں۔

 

تیسری اور سب سے بڑی گواہی خود امجد خان نے اپنی دی۔ وہ بتاتے ہیں کہ سن 2003 میں جب وہ غائب ہوئی اور لوگ مشرف پر اسے اغوا کرکے امریکہ کے حوالے کرنے کے الزامات لگا رہے تھے تو ان دنوں آئی ایس آئی نے مجھے بتایا کہ وہ پاکستان میں ہی ہے۔ پھر ایک دفعہ مجھے اسے پہچاننے کے لیے اسلام آباد ایئرپورٹ پر بلایا گیا جہاں میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ وہ ایک جہاز سے بیٹے احمد سمیت اتر رہی تھی۔ اسکے ٹھیک دو سال بعد ایک مرتبہ پھر مجھے کراچی میں بلایا گیا جہاں ٹریفک جام کے دوران میں نے اپنی آنکھوں سے عافیہ کو پہچانا، وہ عافیہ ہی تھی، میرے بچے بھی اسکے ساتھ تھے۔

 

 میں نے اس بارے میڈیا کو اس لیے نہیں بتایا کیونکہ میں عافیہ کو بچانا چاہتا تھا، میں اپنے بچوں کو بھی بچانا چاہتا تھا کیونکہ امریکی اسکے پیچھے تھے، اسکے انٹرنیشنل ریڈ وارنٹ جاری ہوچکے تھے۔ چونکہ آئی ایس آئی اسکی مسلسل نگرانی کر رہی تھی تو میں سکون سے تھا کہ کچھ نہیں ہوگا اسے۔

 

جب امجد خان کا موقف ہم نے ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کو سنایا تو وہ پھر سے بھڑک اٹھیں، فورا انہیں بیوی کو مارنے پیٹنے والا ظالم شوہر قرار دیتے ہوئے کہنے لگیں اسکے ساتھ شادی کرنا تو عافیہ کی زندگی کی سب سے بڑی غلطی تھی۔ ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے اسی بات پر امجد خان کے خلاف ہتک عزت کا کیس بھی دائر کیا ہے۔

 

دوسری طرف امجد خان کہتے ہیں یہ سب فوزیہ صدیقی مجھے خاموش کروانے کے لیے لیے کر رہی ہیں اور اس لیے کہ کہیں میں ان سے بچوں کی حوالگی کا مطالبہ نہ کروں ۔۔ وہ چاہتی ہیں کہ میں اس معاملے پر ہمیشہ خاموش رہوں، میڈیا کے سامنے نہ آوں، کسی کو کوئی بیان نہ دوں۔

 

اب امجد خان درست ہیں یا فوزیہ صدیقی؟ اس سے ہٹ کر ہم ایک تیسری شخصیت کا موقف جانتے ہیں جن کے پاس عافیہ اپنی پراسرار گمشدگی کے دوران مدد کے لیے گئی تھی۔

 

عافیہ کے انکل شمس الحق فاروقی :


یہ اسلام آباد کے ایک اعلی تعلیم یافتہ جیولاجسٹ اور ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے انکل ہیں۔ شمس الحق فاروقی کہتے ہیں کہ افغانستان میں اپنی گرفتاری سے چھے ماہ عافیہ ان سے ملنے انکے گھر آئی تھی۔ اسے مدد چاہیے تھی۔۔۔۔

 

انہوں نے تفصیل بتاتے ہوئے کہا ؛


ایک سفید کار میرے دروازے پر آکر رکی، اس میں ایک رقع پہنی خاتون بیٹھی تھیں، جیسے ہی میں دروازے پر آیا تو عافیہ کو اسکی آواز سے پہچان گیا۔

 

"اس نے کہا انکل میں عافیہ ہوں"

 

 اور جب میں نے کار سے اتر کر اندر آنے کا کہا تو اس نے انکار کردیا کہ یہاں نہیں، آپ کار میں بیٹھ جائیں ہم تھوڑا آگے تاج محل ریسٹورنٹ پر بیٹھ کر بات کریں گے۔ فاروقی صاحب بتاتے ہیں کہ میں اسکے ساتھ چل پڑا۔

 

ریسٹورنٹ میں اس نے بتایا کہ 2003 سے لیکر اب تک وہ پاکستانی اور امریکی قید میں رہی لیکن جب قید کی تفصیلات پوچھیں تو وہ کوئی واضع جواب نہیں دے سکی البتہ کہتی رہیں کہ مجھے مختلف کمروں میں بند کیا گیا تھا لیکن پتا نہیں کونسے شہر تھے یا کونسے ملک تھے لیکن وہ لوگ مجھے مسلسل ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرتے رہے اور پھر ایک شرط پر رہا کیا گیا ہے کہ میں القا۔۔۔۔ئدہ نیٹورک میں گھس کر انکو معلومات دوں لیکن انکل مجھے ڈر لگ رہا ہے اور میں اس سب سے نکلنا چاہتی ہوں۔ آپ میری مدد کریں پلیز کسی طرح مجھے افغانستان اسمگل کروادیں کیونکہ میں طال۔۔۔۔بان کے ہاتھوں میں سب سے زیادہ محفوظ رہوں گی۔

 

فاروقی صاحب بتاتے ہیں کہ :


اس رات عافیہ قریبی گیسٹ ہاوس میں ہی رہی اور اگلا پورا دن بھی وہ میرے ساتھ ہی تھی لیکن اس دوران وہ اپنا برقع اتارنے سے انکار کرتی رہی لیکن میں نے ایک مرتبہ کھانا کھاتے ہوئے اسکا چہرہ دیکھ لیا تھا۔ وہ عافیہ ہی تھی لیکن اسکے ناک پر کچھ سرجری کی گئی تھی۔۔۔ میں نے پوچھا کہ عافیہ تمہارے چہرے پر سرجری کس نے کی ہے تو اس نے چونک کر کہا کسی نے بھی نہیں۔

 

فارقی صاحب بتاتے ہیں اسکے بعد تیسرے دن عافیہ وہاں سے اچانک غائب ہوگئی اور پھر ٹھیک چھے ماہ بعد اسے افغانستان میں افغان پولیس نے گرفتار بیٹے احمد سمیت خودکش بمبار ہونے کے شبے میں گرفتار کیا۔

 

گرفتاری کے بعد امریکہ میں اپنے ٹرائل کے دوران عافیہ مسلسل شور مچاتی رہیں اور خود کو ذہنی طور پر انفٹ ظاہر کرنے کی متواتر کوششیں کرتی رہی جس کی وجہ سے ٹرائل 6 ماہ تک تعطل کا شکار رہا۔ جج نے اعلی پائے کے ڈاکٹروں کو میڈیکل چیک اپ کا حکم دیا تو ڈاکٹروں نے صاف رپورٹ جمع کروائی کہ عافیہ مکمل صحتمد اور انتہائی ذہین خاتون ہیں، یہ جان بوجھ کر ڈرامے کر رہی ہیں تاکہ کیس نہ چل سکے۔ جج نے ریمارکس میں کہا کہ ممکن ہے عافیہ کو کچھ مسائل ہوں لیکن ٹرائل کے لیے وہ فٹ قرار دی جاتی ہیں۔

 

جبکہ دوسری طرف پاکستان میں عافیہ کو مظلوم بناکر پیش کیا جانے لگا۔ پارلیمنٹ نے عافیہ کے حق میں قرارداد منظور کرلی، سڑکوں پر عافیہ رہائی کے لیے مظاہرے ہونے لگے۔ عمران خان سمیت بڑے بڑے سیاستدانوں نے اپنی الیکشن کمپین میں عافیہ کو واپس لانے کے وعدے کیے لیکن جب حکومت ملی اور عافیہ کہانی کی اصلیت پتا چلی تو عمران خان نے کبھی بھی عافیہ کو واپس لانے کی کوشش نہیں کی۔ یہی حال آصف زرداری اور نواز شریف کا بھی ہے۔

 

اہم بات یہ ہے کہ طالبان لیڈر حکیم اللہ محسوس نے بھی عافیہ کو مسلمان بہن قرار دیکر امریکہ سے اسے رہا کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ 

 

آج پاکستانی عوام بنا کسی سوال اٹھائے عافیہ کی غیر مشروط حمایت صرف اور صرف امریکہ سے دشمنی کی وجہ سے کرتی ہے۔ کچھ پاکستانی ایسے بھی ہیں جو امریکہ کی جبری گمشدگیوں کو نظرانداز کرکے عافیہ کو مجرم قرار دیتے ہیں جبکہ کچھ پاکستانی اب بھی سوال پوچھتے ہیں کہ ایک پانچ فٹ کی غیر مسلح قیدی کس طرح امریکی کمانڈو سے گن چھین کر فائر کرسکتی ہے اور کچھ ایسے بھی ہیں جو سمجھتے ہیں کہ عافیہ اب بھی بہت خطرناک ہوسکتی ہے اسے ہرگز رہا نہیں ہونا چاہیے، اسکے پاس اب بھی اہم مواد ہوسکتا ہے، کیمکلز ہوسکتے ہیں یا نقشے اور ٹارگٹ لسٹیں ہوسکتی ہیں۔

 

اس ساری کہانی میں نیا موڑ اس وقت آیا جب 2011 میں امریکی اوبامہ انتظامیہ نے گوانتاناموبے جیل میں قید مزید پانچ لوگوں کا ٹرائل شروع کرنے کا اعلان کردیا۔ ان لوگوں میں عافیہ کے دوسرے شوہر "عمر البلوچی" بھی شامل تھے جنہیں "علی عبدالعزیز علی" کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ البلوچی پر نائن الیون حملوں کی فنانسنگ کا الزام تھا۔

 

آخری بات ۔ ۔ ۔ ۔

 

اس ساری کہانی کے بعد چند اہم سوالات اب بھی جواب طلب ہیں۔ سن 2003 میں عافیہ کو آئی ایس آئی نے اغوا کیا یا سی آئی اے نے یا وہ خود روپوش ہوئی یا آئی ایس آئی نے جان بوجھ کر انہیں آزاد چھوڑے رکھا تاکہ اسکے زریعے القا۔۔۔ئدہ نیٹورک تک پہنچا جاسکے۔

 

دوسرا اہم سوال کہ اگر عافیہ واقعی ہی اتنی بڑی دہشتگرد تھی تو اسکے پاس سے ملنے والے نوٹسز، کیمکلز اور اسٹیٹیو آف لبرٹی امریکہ پر حملے کے نقشے کیوں عدالت میں ثابت نہیں کیے ہوسکے اور بلٹ پروف جیکٹس اور نائٹ گوگلز خریدنے پر اسے سزا کیوں نہیں دی گئی۔ جا جاکے صرف افغانستان فائرنگ کے واقعے میں ہی کیوں پھنسایا گیا، عدالت میں القائدہ سے تعلق کیوں ثابت نہیں کیا جاسکا۔

 

قصہ مختصر عافیہ ایک حقیقی مسلمان خاتون مبلغی تھی، اسلام کا درد رکھنے والی اور اغیار کے خلاف جہادی سوچ رکھنے والی تھیں، ان کا کسی نہ کسی طرح طالبان اور القائدہ سے بھی تعلق تھا۔ طالبان کی اعلی کمان سے رابطے اور البلوشی سے شادی اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں یہاں تک کہ اوبامہ کو بھی آفر کی کہ میں امریکہ اور طالبان کے درمیان امن معاہدہ کروا سکتی ہوں۔

 

خفیہ ایجنسیوں نے عافیہ کو مسلسل نگرانی میں اس لیے رکھا تاکہ اسکے زریعے القائدہ نیٹورک کو پکڑا جائے کیونکہ ایجنسی سمجھتی تھی کہ عافیہ جہادیوں سے ضرور رابطہ کرے گی اور اس طرح پورا نیٹورک پکڑا جائے گا۔

 

لیکن اس کہانی میں عافیہ کو امریکہ کے حوالے کرنے والی بات بلکل جھوٹ ہے، مشرف بھی اپنی کتاب میں واضع لکھ چکا ہے کہ اس نے عافیہ کو امریکہ کے حوالے نہیں کیا تھا۔

 

یعنی عافیہ پاکستان میں رہی تھیں، امجد خان عافیہ کو دو مرتبہ مختلف جگہوں پر خود اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے تھے اور عافیہ کے انکل جن سے مدد لینے خود عافیہ اسلام آباد انکے گھر تک گئیں۔ اس دوران عافیہ کبھی کبھار بچوں سمیت اپنی  ننھیال گھر ماں اور بہن فوزیہ صدیقی سے بھی ملنے آتی رہیں۔۔۔

 

فوزیہ صدیقی صاحبہ سب کچھ اچھی طرح سے جانتی ہیں اور عافیہ کے بچے بھی جانتے ہیں لیکن عوام کو تصویر کا یہ رخ نہیں دیکھایا جاتا۔ نہ امجد خان کا انٹرویو کیا جاتا ہے نہ ہی احمد یا مریم کو سامنے لایا جاتا ہے۔ عوام کو صرف یکطرفہ فوزیہ صدیقی کا موقف کیوں سنایا جاتا ہے۔

 

یاد رکھیں انٹیلیجنس کی دنیا بہت گندی دنیا ہے۔ یہ انتی وسیع ہوتی ہے کہ کسی بھی نیٹورک تک پہنچنے کے لیے تمام حدود پھلانگی جاتی ہے اور عافیہ جیسے جزباتی مہرے استعمال کرنا تو معمول کا معمول ہے۔۔۔۔ عافیہ کو بھی استعمال کیا گیا۔ ممکن ہے کسی موڑ پر عافیہ کا سی آئی اے سے پھڈا ہوگیا ہو جس کی وجہ سے عافیہ کو جان بوجھ کر فائرنگ والے واقعے میں پھنسایا گیا ہو یا ایسا بھی ممکن ہے کہ امریکیوں کے پاس عافیہ کو سزا دینے کے لیے کوئی ثبوت ہی نہ بچے ہوں۔۔ لہذہ جان بوجھ کر فائرنگ کا واقعہ کروایا گیا ہو تاکہ اسکی آڑ میں عافیہ کو جیل میں رکھ جاسکے۔۔۔ شاید سی آئی اے کو ڈر ہو کہ اگر وہ باہر رہی تو ضرور امریکہ کے خلاف کچھ نہ کچھ کر گزرے گی لہذہ امریکی عافیہ کو ہر صورت اندر رکھنا چاہتے ہوں۔۔۔۔ یہ انٹیلجنس کی دنیا بہت گندی ہے، یہاں عافیہ جیسے مہرے ٹشو پیپر کی طرح استعمال کرکے پھینک دیے جاتے ہیں۔۔۔۔  حقیقت یہ ہے کہ اصل سچ شاید عوام کبھی نہ جان سکے۔

 

(ختم شد)

 

نوٹ : ان 3 اقساط کی سیریز کا مقصد ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو ظالم یا مظلوم ثابت کرنا نہیں تھا  بلکہ صرف پاکستانی عوام کو تصویر کے دوسرا رخ سے آگاہ کرنا تھا۔ اب عافیہ مظلوم ہے یا ظالم اس کا فیصلہ ہم آپ پر چھوڑتے ہیں۔

تبصرے

ایک تبصرہ شائع کریں